Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas
  4. Bongiyan Marne Ka Daur

Bongiyan Marne Ka Daur

بونگیاں مارنے کا دور

ویسے تو تحریر لکھنا ایک فن ہے مگر ہم جیسے شاگرد تحریر کو اس کا مقام نہیں دے سکتے۔ چاہت فتح علی خان کو وائرل ہوتے ہوئے دیکھاتو اندازہ ہوا کہ یہ صدی شاید بونگیاں مارنے والوں کی ہے اور لوگ بھی ان بونگیوں کو سراہتے ہیں۔ آپ کو لگے گا کہ شاید میں احمقانہ بات کر رہا ہوں پر حقیقت یہ ہی ہے۔ آپ سیاست سے لے کر سیاحت تک اور وضاحت سے لے کر کراہت تک ہر بات کا تجزیہ کرکے دیکھیں۔ آپ جان جائیں گے کہ بونگیاں مارنا اور انکا دفاع کرنا دور جدید کا سب سےزیادہ بکنے والا ہنر ہے۔

اس حوالے سے میں ہمارے سیاستدانوں کی مثال بھی دے سکتا ہوں کہ وہ حکومت میں آنے سے پہلے ایسے ایسے بے تکے وعدے فرما دیتے ہیں کہ بندہ پناہ مانگتاہے اور پھر اقتدار ملنے کے بعد جب اپنی ہی کی ہوئی باتوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر بقیہ جتنی بھی مدت ان کے مقدر میں ہو و ہ ماری گئی بونگیوں کے دفاع میں گزر جاتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے 100 دن میں ملک بدلنے کا عندیہ دیا اور بقیہ دور میں وہ انہی 100 دنوں کا حساب عوام کو دیتے رہے۔ ن لیگ نے 2018 میں لوڈشیڈنگ ختم کرکے یا مینیج کرکے عوام کا اعتماد حاصل کر لیا تھا اور اب 2024 کے الیکشن کے بعد بجلی کو آسمانی بجلی کی قیمت میں بیچنے پر لگ رہا ہے کہ انکا مستقبل لوڈشیڈنگ والے اندھیروں کی طرف جا رہا ہے۔

ہمارے ملک میں سب کچھ ہی عجیب طریقے سے چل رہا ہے۔ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد جو اس ملک کو دانشور میسر ہوتے ہیں وہ ملک کو ترقی کی منزلوں کی طرف لے جانے کا عزم لے کر سول سروس میں قدم رکھتے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ آج تک کوئی دانشور اس ملک کو ریلوے کیسی چلانی ہے نہیں بتا سکا۔ کوئی دانشور یہ نہیں بتا سکا کہ پی آئی اے سے انہیں فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان۔ کوئی دانشورآج تک کسی بھی ایک ضلع کو ماڈل ڈسٹرکٹ بنانے میں کامیاب نہیں ہو پایا۔ وجہ جو بھی ہے ٹیلنٹ کی کمی تو نہ ہے اس ملک کے باسیوں میں۔

باقی سب تو ایک طرف ذرا محکمہ تعلیم کی طرف ہی نظر دوڑائیے۔ ہمیں کوئی بھی سکول ماڈل سکول نظر نہیں آ رہا۔ امتحانات کا نظام ایسا ہے کہ مڈل تک تو بندہ ناکامی کا منہ دیکھتا ہی نہیں بلکہ یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ کل ریاضی کے پرچے میں کون کون سا سوال آنے والا ہے اور یہ بھی جانتےہیں کہ اسکا جواب کیا لکھنا ہوگا۔ سمجھ سے باہر ہے کہ بچے پورا سال انگلش زبان میں لکھی گئی کتابوں کی بس ریڈنگ کرتے رہتے ہیں اور سال کے آخر پہ پوزیشنیں تقسیم ہو رہی ہوتی ہیں۔

یونیورسٹیز اور کالجز کا بھی حال ملاحظہ فرما لیں۔ ہر سال کوئی نہ کوئی بونگی کسی نہ کسی کالج یا یونیورسٹی سے سوشل میڈ یا پر شئیر ہو ہی جاتی ہے۔ وہ کالج یا یونیورسٹی بقیہ تعلیمی سال میں اسی بونگی کے دفاع میں پریس کانفرنس کرتا رہتا ہے۔ لوگ اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ سچی بات بھی بونگی تصور کرکے میم بناتے ہیں اور سوشل میڈیا پر چھڑکاؤ کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار کی طرح اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے ہر آنے جانے والے کو پکڑ پکڑ کر ہر بونگی کا تجزیہ مانگ رہا ہوتا ہے۔ بلکہ ایک کمال کی بات تو یہ ہے کہ پرائیویٹ سکولز کے بارے میں باقاعدہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں کہ یہ بزنس مین ہیں۔ پیسہ کما رہے ہیں اور جو بندہ یہ ٹرینڈچلا رہا ہوتا ہے اس کا اپنا بچہ پرائیویٹ سکول میں جا رہا ہوتا ہے اور وہاں وہ ایک نہیں بلکہ بارہ مہینوں کی فیس ایڈوانس میں جمع کروا چکا ہوتا ہے اور سوشل میڈیا پر اتنی سی بونگی صرف اس لئیے مارتا ہے کہ اسے لائک، کمنٹ اور شئیر ملتے رہیں۔

مختصر یہ کہ بونگیوں کا دور ہے ہم نے بھی سوچا دو چار مار لیں۔

Check Also

Sahib e Aqleem e Adab

By Rehmat Aziz Khan