Sunday, 17 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas
  4. Arshi Manzil

Arshi Manzil

عرشی منزل

ایسا ممکن ہی نہیں کہ ایسے حالات میں خاموش رہا جائے۔ خاموشی یقینا ہماری نسلوں کو بھی اپاہج بنا دے گی۔ کراچی میں عرشی منزل میں آگ نے کہرام مچا کے رکھ دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے بلکہ میں تو کہ رہا ہوں کہ آپ جانی نقصان کے انتظار میں تھے ہی کیوں۔ آپ نے اس بارے میں تگڑا بندوبست کیوں نہیں کیا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔ وجہ کوئی بھی ہو آگ لگنا ہماری بحیثیت قوم جاہلیت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ گلی کوچوں میں تاریں ایسے لٹک رہی ہیں جیسے دلہے کے گلے میں ہار ڈالے جا رہے ہوں۔ ایک نکڑ پہ 100-100 میٹر ایسے لگے ہوئے ہیں جیسے کچھ دیر بعد قرعہ اندازی ہونے والی ہے۔

دکانوں اور مارکیٹوں میں باقاعدہ انسولیٹڈ وائرنگ کروانے کی بجائے ہم نے گزارہ کرنے کے لئیے خود سے ہی کئی کئی نسخے لگا رکھے ہیں۔ دن میں کئی بار اس وائر کو جو مین سے آ رہی ہے ہم اپنی عقل و دانش سے جوڑ لگا کر باقاعدہ بجلی کی ترسیل کا کام مکمل کرتے ہیں۔ ہمارے الیکٹریشن بجلی کو ایسے ٹھیک کرتے ہیں کہ آدھ گھنٹے بعد جب انہیں فون کریں کہ جناب فلاں بلب نہیں جل رہا تو صاحب کہتے ہیں کہ آپ خود لائے تھے۔ اس کی وارنٹی نہیں ہوتی۔ ایک ٹرانسفارمر کے آس پاس میٹروں اور تاروں کے ہار ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ٹرانسفارمر کی سیکیورٹی کے لئیے میٹر بھرتی کئیے ہوئے ہیں۔

پوری دنیا سولر سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے اور ہم نے ابھی تک ڈائریکٹ الیکٹریسٹی کا بھی کوئی ایسا بندوبست نہیں کیا کہ وہ مناسب انسولیشن کے ساتھ مہیا کی جا سکے اور شارٹ سرکٹ سے بچا جا سکے۔ حالیہ عرشی منزل کے واقعے سے سبق سیکھنا چاہئیے۔ کراچی میں یہ دوسرا واقعہ ہے جو اسی مہینے میں ہو رہا ہے۔ گورنر سندھ نے اور نگران وزیر اعلی سندھ نے نوٹس تو لے لیا ہے پر وہ نوٹس کہاں رکھا ہے اللہ جانے۔ پر دعاہے کہ وہ نوٹس دوبارہ مل جائے اور سندھ میں اس طرز کا کبھی کوئی دوسرا واقعہ رونما نہ ہو۔ اس حادثے میں 300 سے زائد لوگوں کو ریسکیو کیا گیا ہے۔ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے اور اسکا جسم ایم ایس کی رپورٹ کے مطابق 100٪ جل چکا ہے۔ سوال بس اتنا ہے کہ اس موت کا ذمہ دار شارٹ سرکٹ، دکاندار، الیکٹریشن، بلڈنگ مالک یا حکمران، کون ہے اور کس کے ہاتھوں پر اس کا خون تلاش کیا جائے۔ اس سارے عمل میں پاکستان کے باوقار اداروں نے مکمل جانفشانی سے لوگوں کو ریسکیو کیا پر کیا ایسا ممکن ہے کہ ایسے حادثات کی روک تھام کی جا سکے۔

میرے خیال سے یہ ممکن ہے۔ اگر ہم اپنے اس بجلی کے نظام کو ان ویزیبل کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ بیرون ملک ہے تو ممکن ہے۔ ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ کسی بھی ٹرانسفارمر کی میٹر سیکیورٹی یا تاروں کا ہار ڈالنے والا رواج ختم کرکے اسکا سخت نوٹس لیا جائے۔ لائن لاسز کے نام پر ہر سال یہ جو گھنٹوں بجلی بند کی جاتی ہے ان سے پوچھا جائے کہ لاسز کے دوران کبھی ایسی لائنز سامنے سے گزری ہوں تو اسکا کوئی حل کرکے دیکھا ہو۔ لوگوں کو شعور دیا جائے کہ خود جوڑ لگانے کی بجائے پراپر الیکٹریشن کو بلا کر اس طرح کے کام مکمل تسلی کے ساتھ کروائے جائیں۔

مارکیٹ سے گھٹیا انسولیشن والی وائر اٹھوا دی جائیں اور رکھنے والے کو باقاعدہ بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ گورنمنٹ الیکٹریشنز کی باقاعدہ جانچ پڑتال کرے اور اس کے بعد انہیں یہ کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ کوئی بھی بندہ بغیر سرٹیفکیٹ کے ٹیسٹر پکڑ کر کبھی بھی میٹر کے سامنے کھڑا نہ ہو سکے۔ مالک مکان یا دوکان باقاعدہ دکان یا مکان کی وائرنگ کا ماہانہ یا ششماہی جائزہ لے اور خراب وائرنگ یا ایسی جس سے شارٹ سرکٹ کا اندیشہ ہو اسے فورا تبدیل کرے یا کروائے۔ اس کے علاوہ ممکنہ استعمال پر غور کیا جائے۔ لوڈ کے مطابق برقی آلات استعمال کئیے جائیں۔ زیادہ لوڈ ڈالنے یا پھر چھوٹی وائر سے بڑی موٹر چلانے والی بیوقوفی سے بچا جائے۔

حکومت کو چاہئیے کہ باقاعدہ ٹیمیں ترتیب دے جو ماہانہ انسپیکشن کریں اور ممکنہ خطرات سے نپٹنے کے لئیے دکانداروں اور بزنس مینوں کو وائرنگ اپڈیٹ کرنے کے بارے میں آ گاہی دیں۔ پہلی بار بس معلومات اور دوسری بار اتنا بھاری جرمانہ ہونا چاہئیے کہ کمپنی بند ہو جائے مگر جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہ ہو۔ کم از کم مزید لوگ اس دنیاوی جہنم کا ایندھن بننے سے تو بچ سکیں۔ اور اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو مستقبل قریب میں کوئی ایسی ہی چنگاری ہمارےپیاروں کو نگل بیٹھے گی اور تب ہمارے بھاگنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

Check Also

Aik Irani Lok Kahani

By Amir Khakwani