Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Shumali Ilaqa Jaat Ki Sair (3)

Shumali Ilaqa Jaat Ki Sair (3)

شمالی علاقہ جات کی سیر (3)

صبح ناشتہ معدوں میں انڈیل کر ناران کو چھوڑا اور رستے میں پہلا خوبصورت منظر آیا تو وہیں رک کر اس سے لطف اندوز ہوئے۔ خوبصورت سرسبز پہاڑ، ان پر سیڑھیوں کی طرز پر کاشت کی ہوئی سبزیاں، پہاڑوں کی چوٹیوں پر کالے اور سیاہ بادل، سرسبز وادیاں اور ان میں سے گزرتا ہوا دریائے کنہار اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کررہا تھا۔ میں ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ خاص نظارے صرف کچھ ہی مقامات پر ہیں اور ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے رکنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ ناران کاغان میں ہر جگہ خوبصورتی بلھری ہوئی ہے تو ایسا بالکل نہیں ہے۔

رستے میں جگہ جگہ گلیشیر تھے اور بعض مقامات پر چھوٹی چھوٹی آبشاریں اور ان کا پانی سڑک پر سے گزر رہا تھا۔

ہم بٹہ کنڈی اور جل کھڈ سے گزرتے ہوئے جب بیسر سے گزر رہے تھے تو وہاں ایک چشمے کا پانی سڑک سے گزر رہا تھا اس کو عبور کرتے ہوئے ایک ویگن پر پانی گر گیا۔ اس نے ہارن مار مار کر ہمارے آگے آکر ویگن روک دی۔ نعمان جو ایسے موقعے ڈھونڈتا ہے۔ اتر کو اس کے پاس گیا ویگن میں لوکل ڈرائیور تھا جو خوامخواہ سواریوں کے آگے بدمعاش بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ باقی سواریاں بھی اتر کر آگئیں۔ بحث طویل ہونے لگی تو میں بھی مونچھوں کو تاؤ دے کر پاس چلا گیا اور ہارے باقی ساتھی میرے ساتھ اتر کر آ گئے۔ اب ڈرائیور کہنے لگا کہ مسافر پر پانی گرگیا۔ مسافر صاحب بھی اس طرح رولا ڈال رہا تھا جسے کیچڑ اوپر گر گیا۔ ہم نے کہا کہ "یار

ہم نے ہاتھ سے اٹھا کر جان بوجھ کر پانی پھینکا ہے کیا؟ اور دوسری بات کھڑکی بند کرکے بیٹھا کرو۔ "۔۔ ڈرائیور نے باقی ویگن والوں کو (جو رک کر پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا) دہائی دینی شروع کردی کی "ہم نے پر انہوں نے پانی پھینکا ہے"۔۔ اب ہم نے ہنسنا شروع کردیا کہ یار! ہمارے پاس بالٹیاں ہیں کیا۔ "

جب انہوں نے دیکھا کہ تمام وحشی النسل "جوان" سر ہورہے ہیں اور دوسری ویگن کے ڈرائیور بھی ساتھ نہیں دے رہے ہیں تو ان کی سواریوں نےتاریخی جملہ بولا کہ "آپ لوگ پڑھے لکھے لگتے ہو اور ایسی حرکات کررہے ہو"۔ میں نے دل میں سوچا پتا نہیں بےچاروں کو یہ غلط فہمی کیسے ہوئی ہم پڑھے لکھے ہیں یا شائد انہوں نےسوچا کہ پڑھے لکھے کہیں گے تو یہ مہذب ہوجائیں۔

اگلا قیام لولوسر جھیل پر کیا۔ ادھر بھی آپ لوگ جائیں تو ضرور رکیں کیونکہ ٹھہرا ہوا سبزی مائل جھیل کا پانی، سبز پہاڑ، گہرا نیلا آسمان، اس میں اڑتے سفید بادل آپ کو مسحور کرکے رکھ دیں گے۔ تصویر کشی کے لیے ایک موزوں مقام ہے۔

لولوسر سے نکل کر رستے میں موجود ایک گلیشیر پر رک کر ہم نے اس کی برف کی مدد سے برف کے گولے بنا بنا کر اس پر روح افزا ڈال ڈال کر جی بھر کر کھائے۔ آس پاس کی "گاڑیوں والے غریب لوگ" ہمیں حسرت بھری نگاہوں سے تک رہے تھے۔ کیونکہ ان کے پاس روح افزا نہیں تھا۔ تمام لوگ بیویوں سے دور اس وقت چھیل چھبیلے نوجون بنے اپنے زمانہ طالبعلمی کی حرکتیں دہرا رہے تھے۔

اس کے بابو سر ٹاپ رک کر سنگ میل کے ساتھ تصاویر بنوانے کے بعد نماز کے لیے مسجد میں چلے گئے۔ وہاں سے بابو سرٹاپ کا انتہائی حسین منظر، پہاڑوں میں اڑتے بادل، یخ بستہ ہوا اور نیلا آسمان اور اردگرد کے تمام مناظر آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔ یہاں کی بھی ایک ویڈیو میں نے کھڑکا دی۔

وہاں سے واپسی پر پارکنگ کی طرف آتے ہوئے ایک خاتون باقاعدہ اپنے شوہر کو ڈانٹ رہی تھی کہ "پیسہ قبر میں لے کر جانا ہے کیا؟ بس جاز کی سم لے کر آگئے۔ " بے چارہ مسکین و شریف شوہر بچوں کے سامنے شرمندہ شرمندہ سا چل رہا تھا۔ حالانکہ یہاں کام کرنے سم ایس کام کے بھی سگنل اس دن بند تھے۔۔ ہم نے شکر ادا کیا کہ بیگمات کے بغیر آئے تھے۔

ہمارا پروگرام جگلوٹ جاکر کھانا کھانے کا تھا لیکن ہمارے ایک ساتھی کی شوگر لو ہونے پر چلاس میں موجود ایک چھوٹے سے ریستوران پر رک گئے۔ چلاس میں اچھی خاصی گرمی تھی۔ ہمارے ساری ٹیم سوائے مولوی عابد کے ادھر لم لیٹ ہوکر فوراً انٹ غیل ہوگئی۔ ہوٹل کے مالک نے کہا بھائی لگتا ہے تھک گئے تو میں نے کہا بس سمجھ لو۔۔ عابد نے ہوٹل کے مالک کے باریش والد والد سے گپ شپ شروع کردی۔ میں کچھ دیر سونے کی کوشش کرتا رہا لیکن بے سود۔۔ خیر اٹھ کر عابد کے ساتھ بیٹھ گیا۔ بزرگ نےپوچھا "اِدھر گرمی زیادہ ہے کیا؟" میں نےخوشدلی سے کہا "بزرگو! ہمارے لودھراں میں ادھر سے زیادہ ہی ہوگی۔۔ کھانا بس ٹھیک تھا۔ جب مزید کا کہا تو انہوں نے کہا "ہم دالیں وغیرہ ابال کررکھتے ہیں اور پھر مصالحے وغیرہ میں بھون کر دے دیتے ہیں۔ خیر ہم ذہنی طور پر تیار تھے۔

اب ہم ضلع دیا میر میں داخل ہوکر جگلوٹ پہنچے۔ پھر گلگت سے ہوتے ہوئے ہنزہ پہنچے۔ چکن وغیرہ خریدا تو معلوم ہوا کہ ادھر کمرے دو دو ہزار میں مل جاتے ہیں۔۔

خیر ہوٹلوں کی تلاش کا میں ری سرکردگی میں کام شروع ہوا۔ نیچے کھائی نما جگہ میں اتر کر

پہلے ہوٹل میں گئے جہاں نہ لائٹ اور نہ انٹرنیٹ تھا مگر کرایہ پانچ ہزار۔۔ صدقے وی صدقے۔۔

دو ہزار پچیس سو کے کمرے ڈھونڈتے ڈھونڈتے رات کے گیارہ بج گئے۔ ہنزہ میں ہوٹلوں میں نہانے کا پانی اتنا گدلا ہوتا ہے ہے کہ بندہ نہانے بعد بھی دوبارہ نہانا کی خواہش کرے۔ ادھر بھی لاتعداد ہوٹلوں کی خاک چھاننے کے بعد ہلٹن ہوٹل میں پانچ ہزار پر چھ بندوں کا کمرہ لینے کے بعد ہمارے ایک پسوڑی بھائی کی چیخ پکار شروع ہوگئی کہ ادھر گرم پانی نہیں ہے۔ مزید مہربانی یہ کہ غسل خانے میں بلب ہی نہیں ہے۔ الیکٹریشن نے آنے کے بعد خوشخبری سنائی کہ وائرنگ اڑ چکی ہے۔ خیر ہماری چیخ و پکار پر اس نے دوسرے کمرے کا غسل خانہ ہمیں دیا لیکن میں نے احتیاطاً اسے کہا کہ میں معائنہ کرنا چاہوں گا۔ معائنے کے بعد پتا چلا کہ کہ ادھر آئینہ نہیں ہے۔ میں نے تجویز دی کہ ہمارے کمرے والا آئینہ ادھر لگا دیا جائے۔ آئینہ ادھر لگا دیا گیا۔

اتنی دیر میں ہمارے مطبخ نے چکن کڑاہی تیار کردی اور ہم اس کا صفایا کرنے بعد چائے پی کر نیٹ کے لیے بےتاب ہونے لگے جو ادھر کے سست رفتار دریائے گلگت کی طرح سست تھا۔ رات دو بجے کے قریب کچھ رفتار تیز ہوئی تو گھر والوں کو خیریت سے آگاہ کرکے آج کی تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ سوشل میڈیاپر پوسٹ کرنی شروع کردیں۔

Check Also

Haram e Pak Se Aik Ajzana Tehreer

By Asif Masood