Doosra Janam
دوسرا جنم
میں شروع ہی سے اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ ہمیشہ غیر ملکی اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں کام کرنے کے مواقع اور عزت بہت زیادہ تھی۔
الحمداللہ ہر جگہ پر بڑا نام کمایا۔ اداروں کے سربراہان کے ساتھ مشاورت میں شامل ہونا اور پھر کلائنٹ کے ساتھ بھی مشاورت وغیرہ کرنا۔ فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام اور عشائیے، بزنس کلاس میں سفر۔۔ غرض یہ کہ ایسی ملازمتیں جس کی ہر بندہ آرزو کرے۔۔
میری کارکردگی ہر جگہ پر بہت اچھی تھی۔۔ یقین کیجیے کہ میں ہر اس بات پر اکڑ جاتا تھا جو میرے مزاج کے برعکس ہوتی بلکہ یوں کہہ لیجیے کے مجھ میں برداشت کی بہت کمی تھی اور میرے بہن بھائی حیران ہوتے تھے کہ میں ملازمت کیسے کیے چلا جارہا ہوں۔
کچھ برس قبل میری متحدہ عرب امارات سے واپسی پر اچانک ہمارے ادارے نے زیادہ تنخواہوں والے لوگوں کی ملازمت بغیر کوئی اطلاع دیے ایک مہینے کی پیشگی تنخواہ اور بقایاجات وغیرہ دے کر ختم کردی۔ لوگوں کے چہرے دھواں دھواں تھے لیکن میں واحد بندہ تھا جو ہنستا ہوا ادھر ادھر پھر رہا تھا، لوگ یقین نہیں کررہے تھے کہ پچھلے برس کے کارکردگی کے لحاظ سے نمبر ایک بندے کو بھی کوئی یوں نکال دے گا۔ بعد میں مجھے میرے دوستوں نے بتایا کہ ہمارا دھاڑیں مار مار کر رونے کو دل کررہا تھا لیکن تجھے دیکھ کر حوصلہ ہورہا تھا کہ تیری کارکردگی بھی سب سے اچھی تھی اور پھر بھی نکال دیا گیا۔ کچھ کو بیس بیس سال ہوگئے تھے اس ادارے میں۔ ہم سب لوگ ہمیشہ سے جانے والوں کو "فئیر ویل"، "دعوت رخصت" دیا کرتے تھےاور آج ہمارے اعزاز میں ایسا کچھ نہ تھا اور سب کچھ گھنٹوں میں ہوگیا۔
گھر آکر میں نے شکرانے کے نوافل ادا کیے کہ اللہ نے کوئی بڑی مصیبت ٹال دی ہوگی۔ پھر میں نے ملازمت کے لیے دوڑ بھاگ شروع کردی۔ الحمداللہ میرے پاس بہت اچھی غیر ملکی اداروں کا تجربہ تھا لیکن میرا پچھلا تجربہ اور تنخواہ دیکھ کر ہر کوئی معذرت کرلیتا تھا۔ تھک ہار کر میں نے تنخواہ چوتھائی بتانی شروع کردی۔ کچھ "دوستوں" کے کہنے پر سرمایہ کاری بھی کی۔ جس میں کوئی منافع حاصل نہ ہوا الٹا لینے کے دینے پڑ گئے اور لاکھوں لگانے پر بھی کچھ نہ ملا اور پیسے الگ پھنس گئے۔
پھر میں نے چپس اور سموسوں کا سٹال لگانے کا بھی سوچا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ آن لائن کام بھی ڈھونڈا اور کیا لیکن بمشکل ایک ہفتے بعد معلوم ہوا کہ کلائنٹ نے وہ پروجیکٹ ہی ختم کردیا۔ اوبر پر گاڑی بھی چلائی لیکن مہینے بعد ایک ماہ کے لیے بلاک ہوگیا اور گاڑی کا بھی مجھے کام کروانا پڑ گیا یعنی کچھ حاصل نہ ہوا۔
میں نے چھوٹی سے چھوٹی جگہ بھی کوشش کی یہاں تک کہ دکانوں پر بھی کھڑا ہونے کو تیار تھا لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میں جب بھی شاپنگ مالز جاتا تو بچوں کو اور خود بھی زیادہ سے زیادہ شاپنگ کرتا تھا اور اہلیہ کو بھی کہتا تھا جو چیز چاہیے اضافی لے لو تاکہ بار بار نہ آنا پڑے لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں ٹرالی پکڑ کر سوچ رہا تھا کہ کیا ضروری شے لی جائے اور کیا نہ لی جائے۔
اس ہی طرح تیرہ (13) ماہ گزر گئے اور جمع پونجی بھی ختم ہوگئی۔ تمام دوستوں عزیزوں سے بات کرچکا تھا۔ مجھے جو لوگ جہاں انٹرویو کے لیے کہتے میں پہنچ جاتا کہ کل کو کوئی مجھ سے یہ نہ کہے کہ ہم نے تو کہا تھا لیکن آپ نہیں گئے تھے۔ میں اللہ تعالیٰ سے ہر نماز کے بعد گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا اور رزق کے لیے دعا کرتا لیکن میں کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا تھا۔ ہاں آنے والے وقت سے خوف لگتا تھا کہ اگر اس ہی طرح چلتا رہا تو کیا ہوگا۔
پھر ایک جاننے والے نے کہا کہ مجھے اپنے سٹور پر کسی ایماندار بندے کی ضرورت ہے لیکن تنخواہ زیادہ نہیں دے پاؤں گا۔ میں نے ہاں کردی کہ چلو چار پیسے تو آئیں گے اور گھر آکر بھی بتا دیا کہ کل سے جاؤں گا۔ اللہ کو یہی منظور ہے تو پھر یہی سہی۔
ابھی میں یہ بات کرکے عصر کی نماز پڑھ کر بیٹھا ہی تھا کہ میرے سابقہ شعبے کے سربراہ کی کال آئی کہ میرے دوست کے ادارے میں جگہ خالی ہے لیکن تنخواہ اتنی زیادہ نہیں ہوگی۔ یعنی میرے پچھلی تنخواہ سے تقریباً دس گنا کم۔ میں نے فوراً سے پیشتر ہاں کردی اور مجھے اگلے دن ہی انٹرویو کی کال آگئی اور مجھے ایک سال کی عارضی ملازمت پر رکھ لیا گیا۔
میں نے ادھر کام شروع کر دیا اور میرے ایک ہم منصب نے مجھے ادھر کے بارے میں بتایا اور خاص طور پر ایک بندے کے بارے میں جو انتہائی بدتمیز ہے۔ شومئی قسمت کہ مجھے اس کے ساتھ ہی کام کرنا پڑا۔ یقین کیجیے میری پوری زندگی کی ملازمت ایک طرف اور جو عرصہ اس بندے کے ساتھ گزارا۔ میں نے ادھر سوچ لیا تھا کہ ایک عاجز بندے کے طور پر کام کروں گا لیکن اس شخص کے رویے پر ایک دفعہ تو یقین کیجیے کہ دل چاہا کہ بازو چڑھا کر لڑپڑوں اور اتنی ہی بدتمیزی سے جواب دوں کہ جتنی بدتمیزی وہ کررہا تھا۔ لیکن میں نے اپنے آپ کو سنبھالا کہ پرانا مبشر نہیں بننا۔ ان دنوں گھر آکر بھی میں شدید ذہنی دباؤ کاشکار رہنے لگا لیکن میں دل ہی دل میں کہتا کہ مجھے صبر برداشت سے کام لینا چاہیے جس کی مجھ میں کمی تھی۔
باوجود میری شاندار کارکردگی کہ اس شخص کا برتاؤ ناقابل برداشت ہوتا تھا۔ صرف ایک چیز اچھی تھی کہ ہمارے شعبے کا سربراہ بہت اچھا تھا اور ہمیشہ میری تعریف کرتا تھا لیکن اس بندے کے آگے مجبور تھا کیونکہ وہ شروع ہی سے اس ادارے میں تھا۔
آخر تنگ آکر میں نے اپنے شعبے کے سربراہ سے بات کی اور اس نے اپنے سے اوپر والے مینیجر سے میری بات کروائی جوکہ یہ سن کر بہت حیران ہوا کہ میں نے ساری زندگی اتنا گندہ برتاؤ نہیں دیکھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے ہمیشہ غیر ملکی اداروں میں کام کیا ہے اور یہ میرا پہلا تجربہ ہے۔ اس نے بھی کہا صبر کریں۔
اس ہی دوران میں نے اپنے ادارے کو ایک خودکار طریقہ کار "پروسیجر" بنا کر دیا جس کی وجہ سے ان کا دنوں کا کام چند گھنٹوں ہونے لگا حالانکہ یہ میرا کام نہیں تھا لیکن میں نے اپنے کام کے ساتھ ساتھ اس پر وقت لگایا تھا۔ میرے شعبے کے سربراہ نے اس کو منیجمینٹ کے سامنے پیش کرکے اس کو لاگو کروایا۔
ایک سال کے بعد ادارے کی سالانہ تقریب میں مجھے سال کے بہترین ملازم "ایمپلائی آف دی ائیر" کا انعام دیا اور میری ملازمت بھی عارضی سے مستقل کردی گئی۔ اس کے باوجود اس بندے کا طرزعمل تبدیل نہ ہوا۔
ہمارے ادارے کے سربراہ بہت اچھے تھے لیکن وہ بھی اس بندے کے مختلف لوگوں سے برتاؤ پر اس کو سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے۔ وہ باہر گئے ہوئے تھے کہ اس بندے نے دوبارہ کافی بدتمیزی کی تو میں نے ایک دفعہ پھر جوابی بدتمیزی کے بجائے سوچ لیا کہ اس دفعہ ادارے کے سربراہ کے آنے پر ان سے بات کروں گا کہ کچھ کریں۔
پھر کچھ دن بعد ان کی واپسی ہوئی اور انہوں نے میرے شعبے کے سربراہ کو بلایا۔ میرے شعبے کے سربراہ نے ان کے پاس سے واپس آکر اعلان کیا کہ "مبشر کو فوری طور پر اس پراجیکٹ سے ہٹایا جاتا ہے"۔۔
یقین کیجیے اس شخص کو منہ دیکھنے والا تھا کہ مبشر کے بغیر کیسے یہ پراجیکٹ چلے گا۔
خیر میں نے دوسرے بندے کو کام سمجھایا لیکن مجھے پتا تھا وہ نہیں کر پایا اور میں نے اس کے ساتھ مل کر اس پراجیکٹ کو مکمل کرکے ہی چھوڑا۔
اس پراجیکٹ کے بعد اس بندے کو ہمارے شعبے سے ہٹا کر دوسرے شعبے میں لگا دیا گیا جہاں سے کچھ عرصے بعد وہ استعفیٰ دے کر کہیں اور چلاگیا اور سب نے سکون کاسانس لیا۔ اب بھی جب کبھی لوگ اس کا نام لیتے ہیں تو یقین کیجیے اسے برا بھلا ہی کہتے ہیں لیکن میں نے جتنا صبر و ضبط ان دنوں کیا اتنا پوری زندگی میں نہیں کیا تھا اور الحمداللہ اس وقت ادارے میں میرا ایک مقام ہے اور ادارے کا سربراہ بھی وقتاً فوقتاً میرے کام کو سراہتے ہوئے ایک مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔
اگر آپ کو اپنی زندگی دکھوں اور پریشانیوں میں گزرتی محسوس ہورہی ہے ناامید مت ہوں کیونکہ ناامیدی کفر ہے اس سے بچیے۔ اپنے خالق پر بھروسہ رکھیں کیونکہ وہ آپ کو ان پریشانیوں سے ضرور نکالے گا لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں کبھی بھی کوششیں ترک نہیں کرنی چاہئیں۔ یاد رہے کہ ان کوششوں کے نتیجے میں ہم کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔