Andaz e Guftagu
اندازِ گفتگو
زمانہ طالبعلمی کے دوران میں اکثر چھٹی والے دن ہاسٹل سے فرار ہوکر عموماً اپنی ایک رشتے کی خالہ کے گھر چلاجاتا تھا جہاں تمام خالہ زاد کے ساتھ اچھا وقت گزرتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے محلے کے تمام لوگوں سے بھی میری اچھی خاصی سلام دعا ہوگئی تھی۔
ان کی ایک ہمسائی خالہ شمشاد عام طور پر شام کا وقت ان کے ساتھ ہی گزارتی تھیں۔ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کی امیری کے قصے پوری گلی میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان کی باتیں میری خالہ کے گھر میں ذوق و شوق سے سنی جاتی تھیں۔
میں نے بھی ان کی محافل میں بیٹھنا شروع کردیا۔ اکثر عصر کی نماز کے بعد میری ان کے شوہر سے بھی ملاقات ہوجاتی تھی اور بعض اوقات خریداری کے دوران وہ مجھے بھی مل جاتے تھے۔ ان کے گھر کے آگے سے تو میں اکثر ہی گزرتا تھا۔
ایک دن خالہ شمشاد نے حسب معمول ذکر چھیڑا کہ کل شام کو سحر (ان کی منجھلی بیٹی) نے کہا میں نے سموسے کھانے ہیں، ثریا (منجھلی بیٹی) بولی مجھے نان چنے کھانے ہیں، تسنیم (بڑی بیٹی) کا موڈ چاول کھانے کا تھا جو دوپہر کو بنے تھے، اکبر (بیٹا) کہنے لگا دہی بھلے کھانے ہیں اور بیٹا! میرا موڈ پھل کھانے کا تھا تو میں نے امرود کھانے کا سوچا۔
ان کے ابو کو نماز کے لیے جاتے ہوئے کہا تو وہ واپسی پر سب چیزیں لے آئے اور ساتھ میں دہی بھی لے آئے جس کا میں نے مزیدار رائتہ بنالیا اور سب نے مزے لے لے کر کھایا۔
اکبر کے ابا خشک میوے بھی لائے تھے جو ڈرامہ دیکھتے ہوئے ہم سب نے کھائے۔ اچھا میں اب گھر کو جاتی ہوں۔
اب میں نے اپنی خالہ زاد بھائیوں اور بہنوں کی طرف دیکھا جن کے منہ پانی سے بھرے ہوئے تھے اور بس رالیں ٹپکنے کی دیر تھی۔
"ہائے کتنے مزے ہیں خالہ شمشاد اور ان کے بچے کے! ایک ہم ہیں کہ منتیں ترلے مارتے رہتے ہیں لیکن۔۔ " ایک گلوگیر آواز آئی۔
"جب بھی ان کے گھر کے آگے سے گزرو تو ان کی کوئی نہ کوئی بیٹی خشک میوے کھارہی ہوتی ہے" ایک اور حسرت بھری آواز آئی۔
"او ناشکرے لوگو! رات ہی تو دو کلو مونگ پھلی کے پرخچے اڑائے ہیں تم لوگوں نے اور شام کو ایک درجن سموسوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔۔ شرم کرو" میں بولا۔
"بھائی! رہنے دیجیے۔۔ جب بھی ان کے گھر جاؤ تو وہ مونگ پھلی یا ریوڑیاں وغیرہ کھارہے ہوتے ہیں"۔ آوازآئی۔
اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ میں بولنا شروع ہوا۔ کل جو یہ سب خریداری ہوئی تھی میری موجودگی میں ہوئی تھی۔
انکل کاشف (شمشاد خالہ کے شوہر) میرے ساتھ سب سے پہلے دہی والے کی دکان پر گئے اور جاتے ہی پوچھا "پہلوان دہی کیا بھاؤ ہے؟ تازہ ہے نا" اور نرخ پتا کرکے مبلغ دس روپے کی دہی لی، جو کہ عام حالات میں کم از کم میں تو کبھی نہ خریدوں۔
اس کے بعد سموسے والے کے پاس جاکر سموسوں کو ہاتھ لگا لگا کر چیک کیا کہ گرم ہیں کہ نہیں اور پھر زوردار آواز میں ایک سموسہ لفافے میں ڈال کر دینے کو کہا۔ دکاندار نے انتہائی برا منہ بناتے ہوئے کاغذ پر رکھ کر سموسہ دینا چاہا لیکن انکل کی کڑک دار ڈانٹ سن کر لفافے میں ڈال کر دے دیا۔
ساتھ ہی دہی بھلے والے سے ہاف پلیٹ کے نرخ پوچھ کر اس سے بھی ساز باز کرکے چوتھائی پلیٹ خرید لی۔
کچھ دور امرود والے کے ریڑھی کھڑی تھی تو اس سے طویل بحث مباحثے کے بعد ایک امرود خرید لیا۔
اس کے بعد نان چنے والے سے ایک نان اور اس کے ساتھ کافی منتوں ترلوں کے بعد تقریباً مفت میں چنے بھی ڈلوالیے۔
کچھ دور (میوہ جات) مونگ پھلی والا کھڑا تھا تو اس سے آدھ پاؤ مونگ پھلی بھی لے لی اور لدے پھندے گھر پہنچ کر سب کی عیاشی کروا دی۔
اب تم لوگ مجھے بتاؤ کہ تم اتنی کثیر تعداد میں یہ اشیاء اپنے گھر والوں کو ہضم کرنے دو گے۔ اگر غلطی سے کوئی بچہ سموسے لے آئے تو رولا ڈال کر سب کے لیے سموسے آجاتے ہیں۔
اس ہی طرح ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی ایک بندہ پھل کھائے اور باقی منہ دیکھیں۔
ویسے تم لوگ کبھی دیکھنا کہ دروازے میں کھڑے ہوئے مونگ پھلی کھاتے ہوئے ان کے بچے کے پیروں میں کوئی چھلکا نہیں ہوگا۔ مطلب صرف تم لوگوں کو ساڑنے کے لیے وہ ہاتھ میں مونگ پھلی پکڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اتنی دیر میں تو کم از کم میں آدھ کلو مونگ پھلیاں رگڑ دیتا ہوں جتنی دیر میں وہ ایک نہیں کھاپاتے ہیں۔ باقی ہمارے گھر تو پانچ کلو پھل بھی آجائے تو رات تک اس کو قلاقمع ہوجاتا ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے میں خواتین کی اس قسم کو سلام پیش کرتا ہوں جو انتہائی عام بات یا عام حالات کا ذکر ایسے کرتی ہیں کہ دوسری خواتین دل تھام کر رہ جاتی ہیں۔
یقیناً آپ کے آس پاس بھی ایسی خواتین اور مرد حضرات ہوں گے۔
ویسے اس قسم کا ایک اور تجربہ بھی نظروں اور کانوں سے گزرا ہے جو صرف شادی شدہ حضرات کے لیے لکھوں گا۔