Siasi Kashmakash Mein Phansa Hua Mazdoor
سیاسی کشمکش میں پھنسا ہوا مزدور
دُنیا کے ہر خطے میں سیاسی بُحران آتے رہتے ہیں اور جب اُن ملکوں کا دیوالیہ نکلا تو اس کے اثرات مزدور طبقے کے کندھوں پر پڑے، اور زندگی جینے کے سارے راستے ان کے لیئے دشوار بن گئے، جو پہلے سے ہی حکومت کی طرف سے لگائے گئے بھاری ٹیکسوں میں جکڑے ہوئے تھے اور مہنگائی کی وجہ سے سارا بوجھ اپنے کندھوں پر زندگی کے ساتھ گھسیٹتے ہوۓ سانس لے رہے تھے۔ جس کی مثالیں افریکا کا مُلک گھانا اور سری لنکا اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔
پر ایسی صورتحال میں یہ بات بہت ہی اہم ہے کہ عوام کا ردعمل کیا ہے حکومت کے کیے گئے ایسے عوام دشمن فیصلوں پر؟ کیوں کہ بڑهتی ہوئی مہنگائی کا سارا بوجھ صرف نچلے طبقے کے اوپر پڑ رہا ہے۔ پاکستان ریاست کو برٹش سے جُدا ہوئے 75 سال گزر جانے کے باوجود اس ریاست میں جمہوریت صرف سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے باقائدہ طور پر عملی زندگی میں دور دور تک وہ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
اس ریاست میں موجود صوبوں کے وسائل صرف چند دھڑوں کے قبضے میں رہے ہیں اور وہی لوگ حکومت کو چلاتے ہوئے آ رہے ہیں۔ اس ریاست میں سے اتنا پیسہ قرض کی ادائیگی کا بھی باہر کے ممالک میں نہیں جاتا جتنا منی لانڈرنگ میں جا رہا ہے۔ اور معجزے کی بات یہ ہے کہ وہ پیسہ آئی ایم ایف اور دوسرے ممالک سے قرضے کے طور پر لیا جاتا ہے، تاکہ مُلک کو آسانی سے چلایا جا سکے۔
پاکستان میں چاہے سویلین حکومت کا دور رہا ہو یا نان سویلین، پر اگر ہم دونوں کو دیکھیں گے تو کوئی اتنا سا فرق بھی نظر نہیں آئے گا۔ عوام سے اس کے حقوق چھین کے اسے اس احساس کمتری کا شکار بنایا گیا ہے کہ وہ صرف سانس لینے کو بھی معجزہ سمجھ رہے ہیں۔ ایسی ہی صورت حال سے وابسطہ ہٹلر کے کچھ الفاظ ہیں"عوام کو اتنا دبوچیں کہ وہ جینے کو بھی معجزہ مان لیں"۔
ایسے حکمران صرف یہاں پر ہی ملینگے جو ایک صوبے کے وسائل اس سے چھین کے کسی اور کو دیئے جائیں اور ریاست کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ اس شرط پر لیے جائیں کہ ہم غریب عوام کا خون چوسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ اور وہی قرضہ کسی نہ کسی طرح اپنے قبضے میں کر کے باہر کے ممالک پورے خاندان کے ساتھ بھاگ جاتے ہیں۔
اور رہی بات مُلکی معیشت کی تو اس سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ایسی مثالیں صرف یہیں دیکھنے کو ملیں گی جس ریاست میں موجود ہر آنے والا سیاستدان چار سال دوسرے کو کرپٹ اور غدار کہتا رہتا ہے اور حکومت ختم ہونے کے بعد وہی بات دہرائی جاتی ہے۔ یعنی معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہم آج تک ایک عوامی "لیڈر" سے محروم رہتے ہیں جو صرف عوام کا قائد ہو۔
صرف ایک ہی ہفتے میں پیٹرول کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں سے مواصلات کے ذرائع کم ہو جائینگے۔ عام خرید و فروخت کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بڑھتا جائیگا۔ غربت سے تنگ آ کر لوگ پہلے ہی خودکشی کر رہے تھے جو کہ اب اجتماعیت کا روپ اختیار کر سکتا ہے۔ اسٹیبلشمینٹ اور حکومت کو چھوڑ کر اس پیٹرول بم کے اثرات مزدور طبقہ پر پڑ رہے ہیں۔
ہر چیز جو پیدا کریں اسی سے وہ محروم بن رہا ہے، اصل وجہ مہنگائی بھی نہیں اصل وجہ مزدور کی دہاڑی ہے جو کئی دہائیوں سے طے شدہ ہے جس پہ وقت حاضر کے حالات کے مطابق گزارہ کرنا ناممکن ہے۔ حکومت مُلک کو ایسے رخ میں گھسیٹ رہی ہے جس پہ سوچنے سے بھی دماغ چکرا رہا ہے۔ ایک سیاسی جماعت مالامال بننے کے لئے اقتدار میں آتی ہے تو دوسری جماعتیں اس کو گرانے کے لئے سڑکوں پر لانگ مارچ شروع کر دیتی ہیں، اس اقتدار کی جنگ میں عوام پھنس گیا ہے ایک ایسی حکومت کے بیچ جو کبھی عوامی نہیں ہو سکتی۔
سیاستدان اقتدار کی لالچ میں اتنے بوکھلا چکے ہیں کہ عوام کی اُن کو فکر ہی نہ رہی۔ باہر سے آئے ہوئے فنڈز کو مُختلف پروجیکٹس کے نام دے کے اس پیسے کو ایسے دفن کر دیتے ہیں جیسے آنکھ پلک جھپکتے ہوئے کسی نے دیکھا ہی نہ ہو۔ اور رہے وہ پروجیکٹ وہ تو کب مکمل ہونگے یہ تو کوئی نہیں جانتا، جس کی بڑی مثال تهر میں آئل نکالنے کے لئے شروع کیئے گئے پروجیکٹ، سی پیک، حیدرآباد ٹو سہوّن روڈ، دادو میں سندھ یونیورسٹی کے کیمپس کا کام، کراچی میں سمندر سے ملنے والے تیل کا پروجیکٹ یہ صرف وہ پروجیکٹ ہیں جن کا ہر کسی کو علم ہے۔
تاریخ نے کسی بھی جابر کو نہ معاف کیا ہے نہ کرے گی۔ پھر چاہے چنگیز خان کی لاش پھانسی پہ لٹکی ہو، جولیس سیزر کی موت اپنے ہی ہاتھوں سے ہو، مسولینی کی لاش کو روم کی بیچ بازاروں میں لوگوں کے پاؤں تلے کچلنا، فرانکو کو کوڑے مروانا، حجاج بن یوسف کے جسم کے ماس کو پرندوں سے بوٹی بوٹی کر کے جسم سے اکھاڑنا اور وہ حشر ان حکمرانوں کے ساتھ بھی ہونا ہے اور ہونا چاہیے۔
حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے عوام کو اپنے حصے کی جنگ خود لڑنی چاہیے بالکل ایسے جیسے سری لنکا کی عوام متحد ہو کر کرپٹ حکمرانوں کے خلاف کر رہی ہے۔ پاکستان کے حالات اور بدتر سے بدترین ہوتے جائینگے اور آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے کے مطابق جس شرائط پر قرضہ مل رہا ہے اس حساب سے مہنگائی اور بڑھے گی، جس کی وجہ سے ایک دہاڑی دار مزدور کا جینا مشکل ہو جائیگا۔
جس مُلک کے قوانین ایلیٹ کلاس کے تحفظ کے لئے ہوں، نا انصافی کا عُروج ہو، جابر حکمراں اقتدار میں ہوں، مزدور کی مزدوری آٹھ آٹھ، دس دس گهنٹے کام کرنے کے بعد بھی وہی 600 فکس ہو تو ایسے میں کوئی سانس بھی آسانی سے نہیں لے سکتا۔