Tuesday, 24 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Jasmine Muhammad
  4. Neem Hakeem Khatra e Jan

Neem Hakeem Khatra e Jan

نیم حکیم خطرہ جان

اگر میں بہتر طریقے سے بیان نہ کر پائی، یا آپ بہتر طریقے سے سمجھ نہ پائے تو، مذکورہ مقاصد اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ لہذا اس کو محض ایک کہانی کی طرح پڑھنے کی بجائے، کہانی لکھے جانے کے مقصد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے گا۔

میں برین ہیمرج سروائیور ہوں۔ میرے ارد گرد کے لوگ، اکثر مجھے کسی حکیم، ڈاکٹر، پہنچے ہوئے بزرگ یا عامل کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ میں موڈ اور مزاج کے مطابق، کبھی ہنس کر ٹال دیتی ہوں اور کبھی فٹ فاٹ ہونے کا کہہ کر، بدمزاجی سے کام لے لیتی ہوں۔ برین ہیمرج نے مجھے بہت سے لوگوں سے ملوایا، انہی لوگوں میں شامل تھا " ارمان عدنان"۔

وہ تقریباً میرا ہم عمر تھا۔ تقریباً اس لیے، کہ مجھ سے ایک سال چھوٹا تھا۔ والد حیات نہیں تھے۔ والدہ ایک پرائیویٹ اسپتال میں، بطور ایڈمن، کام کرتی تھیں۔ وہ سائیکلنگ کرتے ہوئے گرا، اور اسے برین ہیمرج ہوگیا۔ مرتے مرتے بچ گیا تو اس کی دادی اماں نے یہ فیصلہ کیا کہ، وہ اپنی والدہ کے ساتھ، ان کے ہاں ہی قیام کرے گا۔ کم از کم، تب تک، جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتا۔ یوں ایک الگ تھلگ ماحول میں پلا بڑھا ارمان، ایک حادثہ کے بعد، ایک بھرے پرے گھر کا حصہ بن گیا۔

ارمان اور اس کی والدہ سے میری ملاقات، اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ فزیو تھیراپی سنٹر میں ہوئی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ، ارمان تھیراپی کروانے پر رضامند نہ تھا، اور تھیراپسٹ نے اسے میری مثال دے دی۔ عین اسی لمحے، جب تھیراپسٹ صاحب، میری تعریف میں رطب اللسان تھے، میں اپنے بابوجی کے ساتھ، باہر لان میں بیٹھی، اپنی اسکیچ بک پر، پنسل سے، تتلی بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔

ارمان کی والدہ، ایک اٹینڈنٹ کے ہمراہ، مجھے ڈھونڈتی ہوئی باہر آ گئیں۔ انہوں نے مجھے سر تا پاؤں گھورتے ہوئے، ایک طویل ترین انٹرویو کا آغاز کر دیا۔ میں نے بدمزاجی کی انتہا کرتے ہوئے، ان کے کسی ایک سوال کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔ جبکہ بابوجی نے نہ صرف، ان کے ہر سوال کا جواب دیا، بلکہ میری میڈیکل فائلز بھی ان کو تھما دیں۔ میں، خوش اخلاقی کے اس شاندار مظاہرہ پر حد درجہ جزبز ہوتے ہوئے، کینٹین میں جا کر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بابوجی، ان خاتون کے ساتھ وہیں آ گئے۔ میں، انہیں دیکھتے ہی، تیزی سے مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ بابوجی ہکا بکا رہ گئے اور میرے پیچھے لپکے۔ ان کے گیٹ تک پہنچنے سے قبل ہی، میں گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ مجھے گاڑی سے اتارنا اور تھیراپی سیشن کے لیے قائل کرنا ناممکن تھا، سو وہ چپ چاپ ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھ گئے۔ یوں، اس روز، نہ تو میری تھیراپی ہو سکی اور نہ ہی ارمان سے ملاقات۔

بابو جی نے دیگر فیملی ممبرز کو نہ جانے کیا بتایا، کہ اگلے ہی روز ارمان، اپنی والدہ اور دادی اماں کے ساتھ، ہمارے گھر کے ڈرائنگ روم میں موجود تھا۔ میری کزن مجھے بلانے آئی، تو میں نے چیخنا شروع کر دیا اور ان سے ملنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے جانے کے بعد، میں بمشکل بیٹھی ہی تھی کہ ارمان کی والدہ، میرے کمرے میں چلی آئیں۔ انہیں دیکھتے ہی، نہ جانے مجھے کیا ہوا، کہ ان کے بولنے کا انتظار کیے بنا، میں اپنے پاؤں میں چپل اڑس کر، سکارف درست کرتی، تیز تیز قدموں سے چلتی، ڈرائینگ روم میں پہنچ گئی اور وہاں ارمان کو دیکھتے ہی میرا دل پسیج گیا۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ، وہیل چیئر پر موجود تھا۔ اس کے زرد چہرے پر ایک ہی قابل ذکر نقشں تھا اور وہ تھیں اس کی آنکھیں۔

خیر! ہماری فیملیز کی ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا، اور اپنی اپنی اولاد کا تقریباً ایک جیسا دکھ سہتے یہ لوگ، ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔

ڈاکٹر اور تھیراپسٹ ایک ہی ہونے کی وجہ سے میری اور ارمان کی مڈ بھیڑ اکثر ہونے لگی۔ میں تیزی سے روبہ صحت تھی جبکہ ارمان، بہت مشکل سے جی رہا تھا۔ البتہ اس کے معمولات میں یہ فرق آیا کہ اس نے مایوسیوں کو چھوڑ کر، علاج پر دھیان دینا شروع کر دیا۔ وقت گزرا۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں، مہینے سالوں بدل گئے۔ میں اور ارمان دونوں ہی فالو اپ پر آ گئے۔

2019-20 میں، کورونا وائرس کی وجہ سے، ہم دونوں ہی مشکلات سے دوچار ہو گئے کیونکہ پراپر تھیراپی نہ ہونے، اور مناسب علاج کی عدم فراہمی نے، ہم دونوں کی صحت پر برے اثرات ڈالے۔

میں نے ایک آن لائن گروپ جوائن کر رکھا تھا، جو برین ہیمرج سروائیورز کو ڈپریشن سے بچانے، اور خودکشی سے روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ 2020 میں ارمان نے بھی وہ گروپ جوائن کر لیا۔ گروپ میں ہمارے اچھے دوست بن گئے۔ کیونکہ گروپ میں برین ہیمرج سروائیورز کے علاؤہ کسی کو ایڈ نہیں کیا جاتا تھا۔ یوں اس گروپ میں کسی کا مذاق اڑانے یا ٹھٹھہ اڑانے کی نوبت کبھی نہ آئی۔ اور نہ ہی وہاں روایتی ڈیجیٹل ماحول فروغ پا سکا۔ گروپ کا ایک ہی سلوگن تھا: برین ہیمرج سروائیورز کی ہر بات کو سننا: Say it to us، and say it all.

گروپ میں ہم دو ہی پاکستانی تھے۔ باقی تمام سروائیورز مختلف رنگوں، نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ گروپ ہمارے لیے جیسے روشنی کا استعارہ تھا کیونکہ ہم وہاں اپنی صحت اور معمولات سے متعلق کچھ بھی پوسٹ کر سکتے تھے اور منٹوں میں ہی، کوئی نہ کوئی ہمدردانہ اور دردمندانہ ہستی اپنے زندگی بخشتے ہوئے الفاظ کے ساتھ آن موجود ہوتی۔ ان کے الفاظ سے زندگی کشید کرتے ہوئے، میں نے قلم اٹھایا، اور ارمان نے عمرہ کی سعادت حاصل کر لی۔

2021 میں زندگی کچھ اس ڈگر پر آ چکی تھی کہ میں ایک لا بلاگر بننے کی چاہت پال چکی تھی، جبکہ ارمان گرافِکس اینڈ ویب ڈیزائننگ کا خواب آنکھوں میں سجائے، ایک پرائیویٹ کالج میں داخلہ لے چکا تھا۔ ہم دونوں کی ایک مشترکہ خواہش تھی کہ پاکستان میں برین ہیمرج سروائیورز کے لیے ایک آن لائن گروپ بنانا، بالکل ویسا ہی گروپ، جس میں ہم بطور ممبر شامل تھے۔

ہمارے خاندانوں کا میل جول، خلوص اور محبت کی بنیادوں پر قائم و دائم تھا۔ فیملی ممبرز، ہماری ہر بات ایک دوسرے سے شئیر کرتے تھے۔ میرے بابوجی، ارمان کے بابو جی تھے اور اس کی امی میری خالہ، اس کی دادی اماں میری دادی اماں تھیں، اور اس کے دادا ابو، میرے بابا جی۔

مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا، تو بابوجی نے مجھے بتایا کہ ارمان پمز ہسپتال میں داخل ہے۔ میں بابوجی کے ساتھ، اس کو دیکھنے گئی، اور اپنی مثال دے کر، اس کا خوب مذاق اڑایا۔ وہ بھی ہنستا رہا۔ وہ ہسپتال سے گھر آ گیا تو بھی گردن میں درد اور اکڑن کی شکایت کرتا رہا۔ اس کے گھر والے، اسے مختلف ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس لے جاتے رہے۔ لیکن بے سود۔ اس کا درد بڑھتا ہی گیا۔

پرسوں سہہ پہر کے وقت، بابوجی اسے دیکھنے گئے تو واپس آ کر، پوری شام، پریشانی میں مبتلا، لان میں ٹہل ٹہل کر بآواز بلند اس کی زندگی اور صحت کے لیے دعائیں مانگتے رہے۔ میں ان کے اس انداز سے حیران رہ گئی۔ میں نے ارمان کو کال کی، تو اس کی والدہ نے کال اٹینڈ کی، اور بتایا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔

شام کو ارمان نے مجھے ویڈیو کال کی، تو میں نے دیکھا کہ اس نے نیک کالر پہن رکھا تھا۔ میں نے مذاق اڑایا تو ہنستا رہا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کا کزن، اسے ایک ہڈیوں کے ماہر حکیم کے پاس لے کر جا رہا تھا، جو مالش بھی کرتا تھا۔ میں نے اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ بہت پرامید تھا۔

کل صبح میں، نماز کے بعد، اپنی کزن کے ساتھ بیٹھ کر، آن لائن شاپنگ کا پلان بنا رہی تھی، کہ بابو جی نے مجھے عجلت میں پکارا۔ میں نے بھی فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا، اور تیزی سے ان کے پاس پہنچ گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ارمان کسی حکیم کے پاس موجود ہے، اور اس کی طبیعت ٹھیک نہیں، اور وہ خود وہاں جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں بھی چلوں گی، تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ میرے جوتے پہننے کا انتظار کر سکیں۔ میں نے بھاگ کر جوتے، گاؤن اور سکارف ہاتھ میں پکڑے، اور ایک ہی جست میں ان کی گاڑی میں جا بیٹھی۔

ارمان کے کزن کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہم ایک ڈیرہ نما گھر میں جا پہنچے۔ لکڑی کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ہمیں ارمان نظر آ گیا۔ وہ لکڑی کے ایک تخت پر، خون کے تالاب میں لیٹا ہوا تھا۔ اس کا اوپری دھڑ ننگا تھا اور نچلے دھڑ پر دھوتی تھی۔ دونوں ہاتھ نیچے لٹک رہے تھے، آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور منہ بھی کھلا ہوا۔ زبان نیلگوں تھی اور ہونٹوں کے کناروں سے نظر آ رہی تھی۔

میں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر پا رہی تھی۔ میں تیزی سے آگے بڑھ گئی، اور اس کے چہرے پر جھک کر اس کی کھلی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ اس کی بے جان نظروں نے جیسے میری روح کھینچ لی۔ میں نے دھیرے سے اسے پکارا " ارمان"

عین اسی لمحے، بابو جی نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے تقریباً گھسیٹتے ہوئے گاڑی کے پاس لے آئے۔ دروازہ کھول کر مجھے بٹھایا اور دوسری طرف سے آ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے۔ میں اس قدر شاکڈ تھی کہ میں ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکی۔ گھر آنے کے بعد، بابوجی نے زندگی میں پہلی بار مجھ سے اپنی محبتوں کا صلہ مانگا اور مجھے قسم دے کر، مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اپنے معمول میں ایک منٹ کی بھی تبدیلی نہ لاؤں گی۔

میں نے ویسا ہی کیا۔ فرق صرف اتنا آیا، کہ میری ایک آنکھ میں زندہ ارمان اور دوسری میں مردہ ارمان تھا۔

میں یہ سب کچھ نہ لکھتی، اگر میری خاموشی نوٹس نہ کی جاتی۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھ سکتی۔ بس دو ہی گذارشات ہیں:

1. برین ہیمرج کے بارے میں اسی طرح معلومات حاصل کریں، جس طرح دیگر بیماریوں کے بارے میں رکھتے ہیں۔

2. عطائیوں کے ہاتھوں لوگوں کو قتل نہ کروائیں۔

اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین

Check Also

Jordan

By Sami Ullah Rafiq