Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Jamshaid Nazar
  4. Jang Ke 100 Din

Jang Ke 100 Din

جنگ کے 100 دن

ایڈولف ہٹلر نے جب یہودیوں کا بڑے پیمانے پرقتل عام کیا تو بعد میں لفظ"نسل کشی" متعارف ہوا، سن 1948 میں اقوام متحدہ نے نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور اس کا رتکاب کرنے والوں کے لئے سزا سے متعلق پہلا معاہدہ منظور کیا جسے نسل کشی کنونشن کہا جاتا ہے۔ 19 دفعات پر مشتمل کنونشن میں درج ہے کہ نسل کشی قابل سزا جرم ہے اور اس جرم سے کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں خواہ وہ آئینی حکمران ہوں، سرکاری عہدیدار یا عام لوگ ہوں، اس جرم کا رتکاب کرنے والوں پر مقدمہ اس ملک کی مجاز سرزمین پر یا عالمی عدالت میں بھی چلایا جاسکتا ہے۔

اسی کنونشن کے تحت جنوبی افریقہ نے نیدر لینڈ کے شہر"دی ہیگ" میں قائم عالمی عدالت انصاف میں پچھلے سال 29 دسمبر کو ایک دعوی دائر کیا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے اور کنونشن کے قوانین پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا ہے ابھی عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آنا باقی تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے پہلے ہی اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عالمی میڈیا میں بیان دیا ہے کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے کسی فیصلے کو نہیں مانے گا اور غزہ میں جنگ جاری رکھے گا۔ ہٹلر کی طرح اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا جنگی جنون بھی بڑھتا جارہا ہے جو تیسری عالمی جنگ کی وجہ بنتا جارہا ہے۔

غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ کے 100 دن مکمل ہونے پر فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجہ میں فلسطینی شہداء کی مجموعی تعداد 24 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جن میں سے نصف سے زائد بچے اور خواتین شامل ہیں۔

عام طور پر کسی بھی ملک میں ہونے والی جنگ کے کچھ عالمی اصول ہوتے ہیں جن کے مطابق جنگ کے دوران ہسپتالوں، سکولوں اور رہائشی آبادیوں کو بمباری کا نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن غزہ پٹی میں تین ماہ سے زائد عرصہ سے جاری رہنے والی جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے 29 ہزار سے زائد بم، شیل اور گولے ہسپتالوں، سکولوں اور رہائشی آبادیوں پر مارے ہیں جس کی وجہ سے 1.8 ملین فلسطینی بے گھر اور5 لاکھ76 ہزار فلسطینی بھوک اور فاقہ کشی کا شکار ہوچکے ہیں۔

ان حملوں کے نتیجہ میں 45 سے 56 فیصد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں، سکولوں کی 69 فیصد عمارتیں، 142 مساجد اور 3 گرجا گھروں کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے اس کے علاوہ 36 میں سے 15 سے بھی کم ہسپتال جزوی فعال ہیں جبکہ 121 ایمنولینسز کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے گویا یہ ایک ایسی ہولناک جنگ ہے جس میں انسانیت اور عالمی جنگی اصولوں کی پروا بھی نہیں کی گئی جس پر اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA)نے خبردار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔

یو این آر ڈبلیو کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر جنگ کے 100 دن اس پٹی کے باشندوں کے لئے ایسے گزرے ہیں جیسے 100 سال ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں بچوں کی پوری نسل نفسیاتی صدمے کا شکار ہے اور وہاں بیماریاں اور قحط بڑھتا جارہا ہے۔ ادھر مصر نے غزہ کی پٹی کے ساتھ سرحد پر صلاح الدین کوریڈور جسے فلاڈیلیفیا کوریڈور بھی کہا جاتا ہے، پر اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈی نیشن کی سختی سے تردید کردی ہے۔

غزہ میں اسرائیلی جنگ کے 100 دن کے موقع پر جب پاکستان، واشنگٹن، لنڈن، سوئیڈن اور تھائی لینڈ سمیت دنیا بھر میں احتجاجی ریلیاں جاری تھیں اس دوران بھی غزہ کے رہائشی علاقوں پر اسرائیلی حملے جاری تھے جس کے نتیجہ میں اگلے 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجہ میں مزید 125 سے زائد فلسطینی شہید اور 312 افراد زخمی ہوگئے۔

واشنگٹن ریلی میں شریک ہزاروں افراد وائٹ ہاوس کی جالیوں تک پہنچ گئے اور فلسطینی پرچم لہرا کر امریکی صدر جوبائیڈن سے غزہ میں فلسطینی نسل کشی کو رکوانے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن اس کا جوبائیڈن پر کوئی اثر نہ ہو اسی طرح چند روز قبل جنوبی کیرولینا کے ایک چرچ میں جوبائیڈن انتخابی مہم کے سلسلے میں سیاہ فام ووٹرز سے خطاب کررہے تھے کہ شرکاء نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے مظاہرہ شروع کردیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر جوبائیڈن کو فلسطینیوں سے ہمدردی ہے توغزہ میں جنگ بندی کروائیں۔

جوبائیڈن نہ توجنگ بندی رکوانے سے متعلق کوئی موثر بیان دے سکے اور نہ ہی مظاہرین کو خاموش کراسکے۔ عالم انسانی کا آج اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ایک سوال ہے کہ جس طرح ہٹلر کایہودیوں کے قتل عام پر نسل کشی کے خلاف کنونشن منظور کرایا گیا تھا آج اسی عالمی قانون پر خود یہودی عملدرآمد کیوں نہیں کررہے؟

اسی طرح امریکہ جس طرح افغانستان میں انسانی حقوق کے نام پر جنگ مسلط کرتا رہاہے ٹھیک اسی طرح فلسطینیوں کے لئے ا نسانی حقوق کاجذبہ آج کہاں گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر کے پاس نہیں ہیں اور شائد تاریخ میں جب بھی ہٹلر کی بربریت کا ذکر ہوگا تو ان دونوں کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad