Digital Bhikari
ڈیجیٹل بھکاری
ایک صاحب فرینڈ لسٹ میں شامل ہوئے۔ معقول لگے لیکن پھر انکی ایک پوسٹ آئی کسی پہاڑی علاقے میں بچیوں کے بارے، انکا گھر گر گیا ہے والد بیمار ہے ان شاء اللہ جلد ویڈیو بنا کر لگاؤ گا۔
کچھ دنوں بعد ویڈیو لگی معصوم بچیاں تھی خیر اس کے بعد انہوں نے اکاونٹ نمبر دیا کہ اس میں چندہ دیں۔ ایک جنت کے ٹکٹ کے نام سے واٹس آیپ گروپ بنایا، جہاں ماہانہ کی بنیاد پر چندے کی ایپل کی گئی۔
اس کی بعد ان کے گھروں میں کچھ سامان پہنچاتے کی تصاویر لوڈ ہوئیں۔ خیر پھر ایسی ہی کچھ ویڈیوز ان کی مزید روزانہ کی بنیاد پر آئیں تحریر بڑی دلسوز لکھی ہوتی تھی، اس کے نیچے پھر اکاونٹ نمبر۔
ان صاحب سے پوچھا کہ آپ کا ذاتی ذریعہ معاش کیا ہیں کہنے لگے آن لائن ٹیچنگ کرتا ہو بہت کماتا ہو آپ کی سوچ سے بھی بڑھ کر۔
اس کے بعد کسی ایسے زمین بوس گھر کی تصویر لگتی ہے، کہ انہیں تعمیر کرکے دینی ہے۔ ساتھ ہی پھر اکاونٹ کی تفصیلات۔
کبھی وہ راہ چلتے کسی کی ویڈیو بناتے، فوڈ پانڈا کے رائیڈر، کسی مکئی بیچتے بزرگ، سڑک کنارے سوتے بچے کی ان کی حالات پر بات کرتے کہ ان کو امداد دینی ہے وہی نیچے اکاؤنٹ نمبر۔
کبھی کسی بیمار شخص کی تصویر اس کے علاج کے لیے رقم کا تقاضہ۔ بجلی کے بلوں پر ایک شخص کا 450 یونٹ کا بل اس کی ایسی مجبوریاں کھینچی گئی دل پسج گیا خیر ان سے پوچھا کہ یا فیملی بڑی ہوگی یا گھر میں اے سی وغیرہ ہوگا۔ تو کہنے لگے ہمارے محلے دار ہیں۔ ایک پنکھا اور بلب ہی ہے اس پر 24000 سے اوپر کا بل۔
ان کے پاس گاڑی دفتر سب کچھ ہے۔ جس پر ہی وہ امداد دینے کے لیے جاتے اب، آن لائن ٹیچنگ سے ما شا اللہ آمدن کافی ہوگی جو وہ یہ سب کچھ افورڈ کرتے ہیں۔
ایک مردان کے بچے کو سوتے پایا جو کسی گتے کے کارٹن پر سو رہا تھا اس کی تصویر کھینچی پھر دفتر لا کر کھانا کھانے کی تصویر پھر کہا کہ اس نے مردان جانا ہے اس کے لیے چندہ دو ایک معزز خاتون نے کہا کہ آپ کا اتنا بڑا دفتر گاڑی ہے کیا آپ اسے کرایہ بھی نہیں دے سکتے۔
میں نے انہیں کہا کہ ان کا یہی شعبہ ہے روزانہ کی بنیاد پر خدمت خلق کرتے ہیں۔ اب تو اچھے بھلے کام کرنے والے افراد کو بھی پیسے دے آتے ہیں۔ جس کی برکت سے وہ محنت کی روزی بھی چھوڑنے کی راہ پر گامزن ہو چکے۔ دراصل سوشل میڈیا آنے سے ڈیجیٹل بھکاریوں کا پورا شعبہ آ چکا ہے۔
ان کی ایسی پوسٹس پر کمنٹس میں انہیں ولی، کاش آپ وزیر اعظم بن جائیں اور انسانیت کا درد بانٹنے والے مسیحا وغیرہ وغیرہ جیسے ستائشی کلمات کہنے والے بھی کم نہیں ہوتے۔
حیران کن بات یہ ہے دوسروں کی مدد کرتے کرتے یہ خود اس مقام پر کم وقت میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ایک شخص کو پہنچنے میں 20 گریڈ کی افسری یا 25 سال کی جدوجہد کا کامیاب اپنا یا والد صاحب کا بزنس ہونا ضروری ہے۔
اصول تو یہ ہے اپنے اردگرد سفید پوش احباب کو دیکھیں جس محلے، شہر گاؤں میں رہتے ہیں، وہاں کے اپنے اور پرائے مجبور لوگ جو ہاتھ نہیں پھیلا سکتے لیکن ان کے رہن سہن، لباس اور کھانے پینے سے ان کی حالت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ہم اگنور کر جاتے ہیں۔ پھر ایسے ڈیجیٹل بھکاریوں اور ان کے مڈل مین بروکرز کے ہاتھ چڑھتے ہیں۔