Delivery Boy, Half Bold Sahafi Aur Zard Sahafat
ڈیلیوری بوائے، ہاف بوائلڈ صحافی اور زرد صحافت
پہلے ذہن سازی کے لیے واعظ و نصیحت اور مختلف تحاریر کتب کی شکل میں موجود ہوتی تھی استعمال کی جاتی۔
اپنے اچھے یا برے نظریات کی ترویج کے لیے معاشرے کے طبقے کو اسی کے ذریعے متوجہ کیا جاتا۔ اس کام کے لیے ذہنوں کو تسخیر کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اور لفظوں کی جادوگری سے سحر طاری کرنے والے افراد کا چناؤ مختلف گروہ کرتے جو معاشرے میں ظاہری اور پوشیدہ رہ کرکے اہداف کو حاصل کرتے۔ یعنی اس وقت پروپیگنڈہ ٹولز کی یہی شکل رائج تھی۔
وقت بڑھتا گیا نت نئے طریقے وجود میں آئے۔ دور جدید میں میڈیا نے اسے پوری مٹھی میں لے لیا۔ پہلے صحافت کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے باقاعدہ تعلیم و تربیت کے ساتھ اس کے اخلاقی پہلوؤں پر بھی توجہ دی جاتی۔
خبروں میں جرائم اور بلخصوص اخلاقی گراوٹ کے واقعات میں لفظوں کا چناؤ اور ان کرداروں کے تصاویر تو دور کی بات ان کے ناموں کے بجائے حروف تہجی لکھے جاتے تاکہ ان کا پردہ رہے۔
دور آیا سوشل میڈیا کا، موبائل فون پکڑے ایک یا دو فرد اینکر، تجزیہ کار، رپورٹر یعنی پوری صحافت ایک ہی شخص کی روح میں مقید ہوئی۔۔
عجیب چلن روز کسی نا کسی تماشے کی صورت سامنے آنے لگا جرائم اور جرائم پیشہ افراد ان ہاف بوائلڈ صحافیوں کی بدولت ہیرو بن کر معاشرے میں اپنا نام بنانے لگے۔۔
لائکس اور ویوز کی دوڑ میں یوٹیوبرز برائیوں اور اس برائی کے نتیجے میں کیفر کردار تک پہنچنے والے افراد کو معاشرے میں ایسے پیش کرنے لگے جیسے وہ رول ماڈل ہو۔۔
ناجائز تعلقات میں ملوث مرد و زن، ناجائز کمائی سے پر آسائش طرز زندگی اختیار کرنے والے احباب کے انٹرویوز کچے ذہنوں میں کیا اثرات چھوڑتے ہیں۔ اس کے معاشرے میں بڑھتے ہوئے مجرمانہ واقعات گواہ ہیں۔
حالیہ دنوں میں اس کی تازہ مثال ایک ڈیلیوری بوائے کا قتل ہے جو کسی شادی شدہ خاتون خانہ کے ساتھ ناجائز مراسم میں ملوث تھا۔ پکڑے جانے پر پھر خاتون کے شوہر کے ہاتھوں عبرت ناک موت کا شکار ہوا، ۔۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا میڈیا اس کی عبرت ناک موت سے دیگر ایسے افراد جو ذہنوں میں خباثت لیے پھرتے ہیں ان کی اصلاح کرتا انہیں عبرت ناک انجام سے ڈراتا۔ زرد صحافت کے علمبردار یوٹیوبرز اور نوآموز اینکرز نے اسے ایک ایسا استعارہ بنا کر پیش کیا جیسے وہ قتل ناحق کا شکار ہوا ہو یا کسی مقدس مشن کے دوران اس نے جان قربان کی ہو۔
اس کے اہل خانہ کے ساتھ انٹرویوز میں مقتول کے لواحقین کی گفتگو میں کہیں بھی ایسی شرمندگی کا اظہار نہیں تھا جو ان کے بھائی، بیٹے کے فعل بد سے معاشرے میں قابل فکر شخصیت کی عکاسی نا کرتی ہو۔۔
اس کی خوبصورتی کی بات کی جاتی ہے، اس کے اچھے اخلاق کی بات کی جاتی ہے اس کی معصومیت پر قصدہ گوئی کی جاتی ہے۔۔ اپنے ویورز بڑھانے کے چکر میں اس کو ایک دیو مالائی کردار بنا کر سوشل میڈیا پر پیش کیا گیا۔۔
امید ہے اس پر ایک فلم بھی بن جائے "ڈیلیوری بوائے"۔ جس میں اس خاتون کو منفی کردار کے ساتھ پیش کیا جائے گا جو شوہر کی بے وفا، نفسانی خواہشات کی ماری اور غیر مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے کی دلدادہ دکھائی جائے۔۔
اس خاتون سے سوالات شرمناک حد تک کرنے کی دوڑ آپ کو مختلف زرد صحافت کے علمبراد یوٹیوبرز اور اینکرز کی ویڈیوز اور ان کے پروگراموں میں نظر آئے گے۔۔ حیرت انگیز طور اس کی اجازت اپنے ادارے بھی دیتے نظر آتے ہیں۔۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو مفتی قوی ایک رول ماڈل کے طور پر نظر آتا ہے ایسے افراد کو پروموٹ کون کرتا ہے سب کے سامنے ہے۔ ابھی ایک ٹی وی چینل کا اینکر کہتا ہے کہ مفتی قوی کے کمرے میں چھاپہ مارتے ہیں۔ کمرے کھلتا ہے دو کمبلوں پر معنی خیز سوال کرتا ہے وہ کہتے ہیں ایک لڑکا سویا تھا پھر معنی خیز سوال "یعنی آپ نے ایک لڑکے کے ساتھ بیڈ شئیر کیا"
ساتھ میں تیل کی بڑی بوتل اٹھاتا ہے اور معنی خیز سوال کرتا ہے۔ صحافت کہاں جا رہی ہے۔۔ ایسے لگتا ہے جسم فروشی کے اڈوں سے اٹھ کر کچھ لوگوں نے مائیک پکڑ لیا ہے۔ اور معاشرے کو متعفن کرتے جا رہے ہیں۔
آپ ایسے جتنے بھی پیجز، یو ٹیوب چینلز کو دیکھیں جو غیر معروف ہیں انہیں ہی ایسے کیسز ملتے ہیں جن میں اکثر پلانٹڈ ہوتے ہیں رشتوں کو پامال کرتے افراد کو دکھایا جاتا ہے۔ کہیں ایئرپورٹ کے باہر مائیک پکڑتی بھاری بھرکم صحافی نما خاتون کسی بابا جی کو جو پھول پکڑے کسی کم عمر ماڈرن خاتون کے پیچھے بھاگتے نظر آتی ہے جو دبئی سے کسی لڑکی کے ساتھ آفیئر چلاتا ہے۔ اور وہ لڑکی کہتی ہے ان بزرگوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔۔ اور پھر وہی کچھ عجیب و غریب سوالات۔۔
یہ سب کیا ہے انڈین معاشرہ جو مغرب کے بعد اخلاقی انحطاط کا شکار ہو کر رشتوں کی پامالی تک پہنچ چکا ہے جہاں ایسی فلموں سے جہاں ملازموں، مختلف سروسز فراہم کرنے والے مرد حضرات اور گھر میں موجود دیگر رشتوں کے مابین ناجائز تعلقات پر مبنی شارٹ موویز نے ان مراسم کو گلیمرائز کیا ہوا ہے۔ اب یہی کچھ پاکستان میں ہونے چلا ہے۔۔
ڈیلیوری بوائے کا معاملہ بھی اسی سے متاثر لگتا ہے۔۔ اگر پاکستان میں ایسے معاملات پر جرائم کے اعداد و شمار اور اس کے ردعمل میں قتل یا لڑائی جھگڑے کے واقعات دیکھے جائیں تو اس کا تناسب دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔۔ حالیہ سال میں اس کا گراف بہت اوپر تک چلا گیا ہے۔۔ جو ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے اجراء میں گزشتہ اور موجودہ سال کی دیکھی جا سکتی ہے۔۔
ایچ آر سی پی کے مطابق سنہ 2022 میں ملک بھر میں غیرت کے نام پر 520 قتل ہوئے۔ قتل ہونے والوں میں 197 مرد اور 323 خواتین شامل ہیں۔ سنہ 2023 میں جون تک غیرت کے نام پر 215 قتل ہوئے ہیں جن میں 70 مرد اور 145 خواتین شامل ہیں۔۔
یہ قتل صرف ان افراد کے قتل نہیں ہوتے۔ ان سے وابستہ خاندان کا معاشی، سماجی قتل اور عمر بھر کے لیے ایک روحانی زخم کا نشان ہوتے ہیں۔ جو ہر وقت رستہ رہتا ہے۔۔
اس کے لیے ضروری ہے ہم اپنے کردار، اخلاق اور مذہبی اقدار، احکامات کو سامنے رکھ کر ہر اس دروازے کو بند کریں جو ہمیں اخلاقی گمراہی کا شکار کرتے ہیں۔۔
اس کے ساتھ ان گھروں کے سربراہان کے لیے بھی لازم ہے اپنی خواتین کے ساتھ حسن سلوک رکھیں جو کسی بھی رشتے سے ان کے ساتھ منسلک ہیں۔ بلخصوص بیوی اور بیٹی کو اپنائیت کا احساس دلائیں۔ ان سے محبت اور خیر خواہی کا رشتہ استوار رکھیں۔ تذلیل، تحقیر اور سب وشتم سے گریز کریں۔ تاکہ اس محبت اور توجہ کی کمی کو دور کرنے کے اسے پھر کسی دوسرے فرد یا چور دروازے کو جو اس کے لیے نامحرم ہوتا ہے تلاش کرنے کی ضرورت نا پڑے۔۔