Gyan Ki Baatein
گیان کی باتیں
تو کمائی کا جدید طریقہ کیا ہے؟ آپ کے مطابق؟ یہ میرا آپ سے سوال ہے! جواب سوچیے تو اتنے میں آپ کو کچھ اور باتیں بتاتا ہوں۔ ہر کوئی کمرے میں بیٹھ کے کوڈ کرنا چاہتا ہے اور امیر بننا چاہتا ہے اُسی آج کے امیر کی طرح لیکن کوئی اُس کے پیچھے کی محنت نہیں کرنا چاہتا یہ جانتے ہوئے بھی کہ آج کے دور میں کمائی کرنا کتنا آسان ہے ہم پھر بھی ان کے پیچھے ہی بھاگتے ہیں جو ہمیں ہر لحاظ سے بے وقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔
اب آپ خود دیکھیں ہمارے ملک میں کتنے کاروباری تنظیم کار اور اثر کرنے والے ہیں جو ہمیں اپنے کورسز بیچ کے ہم سے ہی اپنی کمائی کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ کہ ان کا نام چلتا ہے۔ اگر آپ دوسری طرف دیکھیں تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو چھوٹے درجے پر اُن سب سے اچھا کام کر رہے ہیں لیکن صرف ان کا نام نہ ہونے کے باوجود ہم کبھی بھی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے اور یہی حقیقت ہے۔
کمائی کا طریقہ تو وہی ہے جو ہمارے بڑوں نے ہمیں بتایا ہے محنت کی عظمت یہ اُس ساخت کا نام ہے جو ہمیشہ سے برقرار رہی ہے لیکن میرے دوستو جدید دور کے کوڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر اس کے ساتھ ایک اور چیز ملا دی جائے جو کہ ہوشیاری ہے جسے انگریزی میں سمارٹنس بھی کہتے ہیں تو اس مجموعے سے کیا کچھ کر سکتے ہیں مثالیں آپ کے سامنے موجود ہیں۔
ابراہم لنکن نے ایک دفعہ کہا تھا مجھے صرف چھ گھنٹے دو ایک بڑے درخت کو کاٹنے کے لیے اور میں پہلے چار گھنٹے کلہاڑی تیز کرنے میں لگاؤں گا۔ ہمارے پاس ایک دوسرے کو دلائل اور فلسفے دینے کے لیے بہت ٹائم ہے لیکن خود انہی دلائل اور فلسفوں پر عمل کرنے کا ٹائم نہیں ہے ہم اپنے دوستوں کو رضائی میں بیٹھے مونگ پھلی کھاتے ہوئے پچاس گیان کی باتیں کریں گے اور خود ہم کبھی سوچیں گے بھی نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
آج کے اس ڈیجیٹل دور میں رہتے ہوئے جب ہم اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے تو اس سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم اب بھی ادی مانو کے دور میں رہ رہے ہیں۔ بےشک ہمارے خواب مرسیڈیز بنز والے ہیں اور ہم محنت مہران والی بھی نہیں کرتے۔ ہمیں اپنی ساخت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے جو عنصر یہاں سوچ ہے یہ وہی چیز ہے جو آپ کو اونچائی پہ بھی لے کے جاتی ہے اور زمین پہ واپس بھی لاتی ہے۔
دوسری چیز ہمارا معیار ہے جس کو بدلنے کی ضرورت ہے اس کی مثال یہ ہے کہ ہم ہر سال آئی فون کا نیا ماڈل خریدتے ہیں چاہے وہ کتنا ہی مہنگا کیوں نہ ہو لیکن وہ وہیں دوسری طرف ہم دس بیس روپے کے لیے دکان یا رکشے والے سے بحث کر رہے ہوتے ہیں۔ مسئلے کی اصلی جڑ یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بہت ضروری سمجھتے ہیں انگریزی میں ایکسکلوسولی امپورٹنٹ کہہ لیں۔ اسی پہ ٹی ایس ایلیٹ کہتے ہیں اس دنیا میں آدھا نقصان اُن لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو اہم محسوس کرنا چاہتے ہیں وہ اس کا جواز پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بارے میں اچھا سوچنے کی نہ ختم ہونے والی جد وجہد میں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم کبھی اس دلدل سے باہر آئیں گے؟ تو جواب ہے نہیں۔ قرآنِ مجید میں بھی یہ بات واضح کہہ دی گئی ہے وَاَن لَّيسَ لِلاِنسَانِ اِلَّا مَا سَعٰ اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کےلئے وہ کوشش کرتا ہے۔ تو میرے عزیز ہم وطنوں ہمیں اپنے معیار کو درست کرنا ہے اور اپنی سوچ کو بدلنا ہے اپنے خوابوں کو پورا کرنا ہے بجائے پٹرول کی خوشبو سونگ کے ٹن ہونے کے آنے والی نسلوں کے لیے کچھ مثال قائم کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ پاکستان زندہ باد۔