Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Dunky Ya Maut Ka Kunwa

Dunky Ya Maut Ka Kunwa

ڈنکی یا موت کا کنواں

ڈنکی کا لفظ میں نے پہلی بار کچھ عرصہ پہلے منڈی بہاؤالدین میں سنا۔ میں اس سے پہلے اس لفظ سے نا آشنا تھا۔ ابھی بھی آپ میں سے کافی لوگ ایسے ہوں گے جو کہ اس لفظ سے نابلد ہوں گے۔ ڈنکی کی اصطلاح استعمال ہوتی ان لوگوں پر جو غیر قانونی طور پر یورپ یا دیار غیر کا سفر کرتے ہیں۔ جب ڈنکی کی اصطلاح طشت ازبام ہوئی وہیں یہ انکشاف بھی ہوا کہ منڈی بہاؤ الدین، گجرات، پھالیہ، نارووال اور ان کے گردونواح کے علاقے انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے سونے کی کان سے مشابہت رکھتے ہیں۔

منڈی بہاؤالدین میں تو دعویٰ کیا گیا کہ شاید ہی کوئی گھر ہو جس کا کوئی فرد یا عزیز بیرون ملک مقیم نہ ہو۔ بیرون ملک جانا کوئی عیب نہیں۔ بلکہ ہجرت سنت نبویؐ ہے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کا پاسپورٹ کافی اہمیت کا حامل تھا کئی ممالک خاص کر یورپ وغیرہ میں جانا آسان تھا۔ اس وقت روزگار کے سلسلے سے گئے ہوئے لوگ بعد میں امیر ترین لوگوں میں شمار کئے گئے۔ یہ ان لوگوں کی انتھک محنت کا نتیجہ تھی۔

ایک وقت آیا کہ دبئی جانے والوں کی لاٹری لگی۔ محاورے گھڑے گئے کہ بھئی لگتا اس کا تو دبئی لگا ہوا ہے۔ جہاں بیرون ملک کی کمائی کا تعلق ہے کوئی شک نہیں اس سے انسان اپنے پچھلے گھر والوں کی زندگی میں تبدیلی اور آسانی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ وہیں اس کے انسان کو ذاتی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہتے پردیس پردیس ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ والی بات بھی نہیں ہے۔

میں نے ذاتی طور پر عمرہ کے دوران اس عرب ملک میں مقیم پاکستانیوں کے روئیے، چہرے بغور پڑھنے کی کوششش کی زیادہ تر پریشان حال آنکھوں میں اداسی کھچے کھچے سے بےزار بےزار سے نظر آئے۔ زیادہ تر نے یہی کہا کہ اصل زندگی کو پیچھے گھر والے انجوائے کرتے ہیں۔ کہ جی ان کا بیٹا باہر گیا ہوا ہے پر کہتے نہ کہ کون سا باہر پیسے درختوں پر اگتے ہیں۔ خون پسینہ ایک کر کے یہ سب پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔

ہمارے ہاں روزی کمانے کے لئے شارٹ کٹ ذرائع ڈھونڈے جاتے ہیں ان میں سے ایک کسی بھی طرح دیار غیر پہنچنا ہے۔ انسانی اسمگلر جھوٹے سچے خواب دیکھا کر نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھنسا لیتے ہیں۔ اس کا دوش میں پردیسی بھائیوں کو بھی دوں گا کہ جب وہ چھٹی پر آتے ہیں تو کلف لگے کپڑے، مہنگے برانڈ کی گھڑی اور گاڑی کا استعمال عزیزوں اور قریبی رفقاء پر نفسیاتی اثر ڈالتا وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے کہ ہمیں بھی کسی طرح باہر جانا چاہئیے تو ایسے لوگ بھی اس مافیا کا شکار ہو جاتے۔

ہماری حکومتوں کی بھی بے حسی نمایاں ہے۔ کوئی پلاننگ نہیں ہے۔ ہم دھڑا دھڑ غیر معیاری تعلیم دے رہیں بے مقصد تعلیم جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر، نہ ہی جس کا کوئی عملی زندگی میں کردار ہے۔ بس ایک موج ظفر بنائے جا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ ہمارے ہاں نوجوان طبقہ ہے اور وہ طبقہ بیروزگار بھی ہے۔ ملک میں یا بیرون ملک کھپانے کے لئے کوئی جامع منصوبہ بندی موجود نہیں۔

بھٹو دور میں اس کی اہمیت کو سمجھا گیا اور بہت سے لوگ دیار غیر قانونی طور پر بھیجے گئے۔ آج جو ملک میں اکانومی کو مدد مل رہی وہ اصل میں وہی لوگ جو روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ یہ ایک معاشی میدان میں بہت بڑا ستون ہے ہمارے ہمسائے ملک نے اس اہمیت کو سمجھا، اپنے سفارت خانے متحرک کئے اور اپنی نسل کو تمام یورپی ممالک میں ایڈجسٹ کیا۔ آج آپ کو تمام ٹاپ کی پوسٹ پر زیادہ تر ہمسائے ملک کے لوگ براجمان نظر آئیں گے۔

ہمیں بھی ایسی پالیسی ترتیب دینا ہوگی، اپنے سفارت کاروں کو متحرک کرنا ہوگا کہ بجائے وہ اپنے ذاتی یا خاندان کے لوگوں کو سیٹل کریں ملکی مفاد کے لئے کام کریں۔ جیسے جاپان سے ہنرمندوں کے لئے معاہدہ کیا گیا ہے ایسے معاہدے دوسرے ممالک سے بھی کرنے چاہئے تاکہ قانونی ذرائع سے ہم اپنی نسل کے لئے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر سکیں۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بھی یہ آواز اٹھانی چاہئے کہ جو ممالک امیگریشن پالیسی سخت بنائے ہوئے ہیں ان کو بھی چاہئے کہ اس میں نرمی لائیں تاکہ لوگ قانونی ذرائع سے آمدورفت کو یقینی بنائیں۔

ہمارے تھنک ٹینک کو بھی چاہئے کہ نوجوان نسل کے لئے نوکری کے ساتھ ساتھ ایسے سمال انڈسٹری پروگرام متعارف کروائیں جو لوگ ڈنکی پر لاکھوں خرچ کر کے موت کو دعوت دیتے ہیں اپنے ملک میں رہ کر اتنی ہی محنت کر کے اپنا اور کئی لوگوں کا پیٹ باآسانی پال سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے ہمارے افغانی بھائی ایسے ایسے کام کر کے روزانہ کی بنیاد پر پیسے کما رہے جسے ہم خاطر مدارت میں نہیں لاتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے تو وہ ہمارے ملک کو سونے کی کان سمجھتے ان کے لئے ہمارا ملک ایسا ہی ہے جیسا ہم یورپ کے کسی ملک کو سمجھتے ہیں۔

ہمیں اپنے ملک کی قدر کرنی چاہئے۔ اپنے پاسپورٹ کی اہمیت اور قدرومنزلت میں اضافہ کرنا چاہئیے نہ کہ ایسے کام کر کے جس سے دنیا میں سبز پاسپورٹ کی قدرومنزلت میں کمی واقع ہو۔ ہمارے لئے یہ بہت تشویش ناک اور افسوسناک صورتحال کہ ہماری بچیاں بھی اب ڈنکی لگانے پر آ چکی ہیں۔ یہ بہت ہی الارمنگ ہے۔ جس بچی کی اس موت کی کشتی سے لاش ملی ہے اپنے پیچھے بہت سے سوال ہماری اشرافیہ اور اقتدار کے مکینوں کے لئے چھوڑ گئی ہے۔ ایسا ہیرا جو ہماری قومی کھیلوں میں جگمگا رہا تھا کیونکر وہ قانونی طور پر دیار غیر نہیں جا سکا؟

اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں ان وجوہات پر ازسر نو غور کرنا ہوگا اپنی نسل کے لئے ملک کے اندر اور ملک سے باہر روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ سمال انڈسٹری کو ترقی دینی ہوگی۔ روایتی اداروں کا چیک ختم کرنا ہوگا خوف و ہراس کی پالیسی ختم کرنا ہوگی۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ جو سیدھے طریقے سے کام شروع کرنا چاہتا لال فیتا اس میں رکاوٹ بن جاتا ناکامی کی یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے اتنے ادارے ملوث ہو جاتے کہ جان خلاصی میں ہی عافیت سمجھی جاتی۔

نوجوان نسل کو بھی چاہئے زندگی بار بار نہیں ملتی صبر کرنا سیکھے شکر کے کلمات ادا کرتے رہنا چاہئے، ہمیشہ اپنے سے نیچے کو دیکھے تو ناشکری عود نہیں کرے گی۔ زراعت، باغبانی، فارمنگ، ڈیری مصنوعات ایسے بے شمار کام جو ہم اتنے پیسوں سے بہت اچھے سے کر سکتے ہیں۔ جس سے ہم انسانی اسمگلر کو دے کر اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرتے ہیں۔ ڈنکی تو سیدھا سیدھا موت کا کنواں ہے۔ جو خودکشی کرنا چاہتا ہو وہی اس موت کے کنوائیں میں چھلانگ لگائے گا۔

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi