Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Debate Ka Mahol Paida Karen

Debate Ka Mahol Paida Karen

ڈیبیٹ کا ماحول پیدا کریں

ڈائیلاگ بہت ہی اچھی چیز ہے۔ ہم وزیراعظم کی سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں مگر موجودہ سیاسی کشیدگی کے حالات میں اس کا امکان انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ تحریک انصاف نے جب وہ حکومت میں تھے تو اس پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا اب تو وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ان کی حکومت چھینی ہے لہذا جیسے بھی ہو وہ حکومت کو مشکلات میں ڈال کر فارغ کرکے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ اس لئے مجھے نہیں لگتا کہ اس طرح کی کوششیں کامیاب ہوسکیں۔

پاکستان اس وقت بدتریں معاشی بحران کا شکار ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ جتنی جلد ہوسکے اس پر قابو پا لیا جائے اور تحریک انصاف ان مشکلات میں مزید اضافہ دیکھنا چاہتی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام ان مشکلات میں حائل سب سے بڑی وجہ ہے اور وہ اس پر قابو پانا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے ان کو فوری انتخابات پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

انتخابات اس سال نہ ہوئے تو اگلے سال ویسے بھی ہونے ہی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر، اعلانیہ یا غیر اعلانیہ انتخابات کی تیاری میں مشغول ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ وہ کارکردگی دکھا کر عوام کے دل جیت سکے اور تحریک انصاف چاہتی ہے کہ حکومت کو جتنا ہوسکے بدنام کیا جائے تاکہ عوام ان سے بددل ہوں۔ ایک دوسرے پر الزامات کی جنگ جاری ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ سارا گند تحریک انصاف نے کیا ہے۔ آئی ایم ایف سے سخت معاہدے کرکے پاکستانی معیشت کو بدحال کردیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف الزام لگا رہی ہے کہ اگر ان کی حکومت کو چلنے دیا جاتا تو وہ مشکل دور سے نکل آئے تھے اب کارکردگی دکھانے کا وقت تھا۔

تو ایسی صورتحال میں ڈائیلاگ ممکن نظر نہیں آتا اور ایک دوسرے پر الزامات کا ماحول عوام کو تذبذب کا شکار کئے ہوئے ہے۔ دونوں اطراف کی حمایت میں جگری دوست بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے اسی سیاسی تکرار پر اپنے ہی دوست کی جان لے لی۔

سوشل میڈیا کا دور ہے۔ جہاں بروقت معلومات تک رسائی کو اس نے ممکن بنا کر عوام کو ہر بات سے باخبر بنا دیا ہے وہاں اس کے نقصانات بھی ہیں۔ سوشل میڈیا سچی خبروں سے زیادہ جھوٹی خبروں کو پھیلا رہا ہے۔ تحقیق کا پہلو انتہائی کمزور ہے اور خبروں سے زیادہ افواہیں پھیل رہی ہیں۔ دوسرا اس کا نقصان یہ ہے کہ یہ ہر فرد کو اس کی پسند اور دلچسپی کے مطابق مواد مہیا کئے رکھتا ہے۔ جس سے اس کو ایک طرف کا موقف اور اس کے حق میں دلائل ملتے رہتے ہیں جس سے اس کی سوچ مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو وہ جانتا ہے وہی حقیقت ہے۔ دوسری طرف کا موقف اور دلائل یا تو وہ سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا یا پھر اس تک پہنچتے ہی نہیں۔ اس لئے معاشرہ عدم برداشت اور کشمکش کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ حکومت قومی نشریاتی ادارے کے تحت پاکستان ٹیلی وژن پر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے درمیان ڈیبیٹس کا اہتمام کروائے اور ایسا ماحول پیدا کرے کہ عوام کو دونوں اطراف کا موقف اور اس کے حق میں دلائل کو جاننے کا موقعہ ملے۔ لہذا اب حالات سیاسی ڈیبیٹ کا تقاضہ کررہے ہیں۔ عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کون صحیح کہہ رہا ہے اور کون غلط۔ کس کا موقف کہاں تک درست ہے تاکہ وہ فیصلہ کرسکیں کہ ملک کو یہاں تک پہنچانے میں کون کون قصوروار ہے۔

عوام یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اب ملک کو اس معاشی بحران کی دلدل سے نکالنے میں کون مخلص ہے اور کون چاہتا ہے کہ مزید حالات خراب ہوں۔

ان ڈیبیٹس کے زریعے سے عوام میں شعور اجاگر ہوگا اور حالات سے آگہی حاصل ہوگی تب جا کر سیاسی عدم استحکام سے جان چھوٹے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ غیر جانبدار معاشی ماہرین کو بھی ایسے پروگرامز میں دعوت دے جو نہ صرف اس ڈیبیٹ کو ابزرو کریں بلکہ دونوں اطراف کے قائدین سے سوالات بھی کریں اور ان کی پیش کردہ معلومات پر وضاحت بھی طلب کریں۔ ساتھ ساتھ ان ڈیبیٹس پر اپنے تبصروں اور تجزیوں سے بھی عوام کو مستفید فرماتے رہیں۔

اس سے نہ صرف سوشل میڈیا کے زریعے سے پھیلائی گئی غلط معلومات اور افواہوں کی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ عوام کو حقائق سے آگاہی ہوگی اور ان کے اندر اچھے اور برے کی تمیز بھی اجاگر ہوگی۔ ان کو معلوم ہوگا کہ کون حقیقی معنوں میں ملک و قوم کے مفادات کا حامی اور سچا محب وطن ہے۔

یہ مشق ان کو بے یقینی کے ماحول سے نکال کر سچائی کی دنیا میں امیدوں سے متعارف کروائے گا۔ اس سے ان کے اندر صحیح نمائندوں کے انتخاب کی صلاحیتیں اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کے اندر ملک، اس کے مفادات اور املاک کے بارے احساس ملکیت اور اہمیت بھی اجاگر ہوگا۔ اور آپس میں ربط کا سبب بن کر ایک قوم بنانے میں معاون ہوگی۔

حکومت جب اپوزیشن کو خلا مہیا کرے گی تو پاکستانی سیاست کا کلچر تبدیل ہوگا۔ ایک دوسرے کو سننے اور برداشت کرنے کی قوت پیدا ہوگی اور قوم کی توانائی، صلاحیتیں اور وقت کا استعمال صحیح سمت میں ہونا شروع ہوجائے گا جس سے ترقی کے نئے نئے باب کھلیں گے۔

ہر سیاسی جماعت میں مثبت اور منفی سوچ کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اس ماحول سے مثبت سوچ والے لوگوں کو آگے آنے کا موقعہ ملے گا اور اس طرح ان کو عوام میں پزیرائی ملے گی اور منفی سوچ والے خود بخود ہی پیچھے ہوتے چلے جائیں گے۔

حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن کے الزامات، تحفظات اور خدشات پر برا نہ منائے بلکہ ان کو چیلنج کرے کہ وہ آن لائن سٹریم میں آکر اس پر ڈیبیٹ کر یں اور اسی طرح اگر اپوزیشن کو بھی کسی پالیسی پر اعتراض ہے تو وہ بجائے سڑکوں چوراہوں میں وقت اور توانائی ضائع کرنے کے قومی اسمبلی یا سینٹ میں آکر وضاحت طلب کرے یا پھر پاکستان ٹیلی وژن پر چیلنج کرے اور اپنا موقف عوام کے سامنے رکھے اور حکومت عوام کے سامنے ان اعتراضات کا کھلے دل کے ساتھ جواب دے اور ان کو مطمئن کرے۔ یہی مہذب قوموں کا طریقہ کار ہوتا ہے۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf