Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Qabron Mein Nahi Hum Ko Kitabon Mein Utaro

Qabron Mein Nahi Hum Ko Kitabon Mein Utaro

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو

ہم لوگ محبت کی کہانی میں مریں ہیں

اعجاز توکل اس شعر میں کتاب سے محبت کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے ہمیں قبروں میں نہیں کتابوں میں اتارو ایک وقت تھا جب لوگ کتابیں پڑھتے تھے۔ کتاب سے محبت کرتے تھے اور ایک کتاب کے لیے پوری لائبریری تلاش کرتے تھے بعض کتاب سے پیار کرنے والے دوستوں سے کتاب لیتے۔ ان کو پڑھتے پھر واپس دیتے۔

چند دن پہلے ایک دانشور سے میری ملاقات ہوئی کتاب پر بات شروع کی اس دانشور نے فرمایا کہ آج سے تقریباً چالیس سال قبل جب ہم جوان تھے۔ یہ 1982 کی بات ہے اس زمانے میں سکول جاتا تھا اور ساتویں جماعت میں تھا۔ کتابوں کے ساتھ میرا بہت پیار تھا۔ اور کتابوں کو بہت شوق سے پڑھتے تھے جب کوئی دوست یار کلاس میں کسی کتاب کا ذکر کرتا کہ یہ بہت اچھی کتاب ہے اور میں نے پڑھا ہے تو ہم اس دوست کے پیچھے پڑ جاتے کہتے کہ یہ کتاب مجھے چند دنوں کے لیے دے دو۔

اس کے علاؤہ سکول سے چھٹی کے بعد ہم کھانا پینا کرتے اور سیدھا لائبریری جاتے وہاں پر مختلف قسم کی کتابیں پڑھتے اس دانشور نے کہا کہ میں ذیادہ تر افسانے، ناول اور فلسفے کے کتابیں پڑھتا تھا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ میں نے جب میٹرک پاس کیا تو بے شمار کتابوں کا مطالعہ میں نے کیا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ہمارے زمانے میں صرف ٹیلی ویژن اور ریڈیو تھا اور فارغ وقت میں ہم ان کو سنتے اور دیکھتے تھے۔

کتاب کے متعلق انھوں نے بتایا کہ ہمارے زمانے کے نوجوان میں بہت عزت و احترام تھا وہ بڑوں کی عزت کرتے تھے بڑوں کی بات سنتے اور اگر وہ اسے ڈانٹتے بھی تو جواب میں اُف کر نہیں بولتے اس زمانے کے لوگوں کو بات کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ اور انتہائی شائستگی سے وہ لوگوں سے بات کرتا، میں نے اس دانشور سے سوال کیا کہ آج کا جو دور ہے جو نوجوان نسل اور آپکا جو دور تھا چالیس سال پرانا کتنا فرق آپکو نظر آتا ہے؟

اس نے مسکرا کر جواب دیا کہ اگر میں کہوں کہ زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ تو یہ بھی کم ہے۔ دوسرا یہ کیا سوال کہ یہ جو خلاء ہے کتنے وقت میں یہ ختم ہوگا مطلب ٹھیک ہوگا اور اس میں زیادہ تر کون سے لوگ اس خلاء کو ختم کرسکتے ہیں؟ جواب میں انھوں نے کہا آج کا دور جدید دور ہے جسے آپ ماڈرن کہتے ہو۔ نئی نئی ٹیکنالوجی میدان میں آگئی ہے اور آئندہ بھی آۓ گی۔ لیکن میں آپکو ایک بات کہتا ہوں آج کے اس جدید دور میں سوشل میڈیا نے ایک طرف انسان کو بہت سہولیات دی ہیں لیکن دوسری طرف اس کے نقصانات بھی ہے۔

اس میڈیا کے ذریعے ہم جو اپنا وقت تباہ کررہے ہیں یہ ہماری نوجوان نسل میں عقل و شعور کی کمی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک ویڈیو ایپلیکیشن ہے ٹک ٹاک آپ اس وقت سب کچھ ایک طرف رکھ دو۔ اور ٹک ٹاک کو دیکھو اس ایپ کو چین اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کس طرح استعمال کرتے ہیں دانشور صاحب نے کہا کہ وہ ایک ویڈیو ایک پندرہ یا تیس سیکنڈ کی ویڈیو بناتا ہے لیکن اس میں بہت معلومات ہوتے ہیں۔ لوگ دیکھنے کے بعد اس چھوٹی سی ویڈیو سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ میں نے کہا کیسے؟ انھوں نے بتایا کہ وہ لوگ "ری ورس انجنیرنگ"کرتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ وہ لوگ پرانی چیزوں کو اٹھا کے ان سے کچھ نیا بناتے ہیں اور پھر اس کی ویڈیو بناتے اور اپلوڈ کرتے ہیں ایک فائدہ تو ان لوگوں کو یہ پہنچتا ہے کہ سوشل میڈیا کی طرف سے ان کو پیسے ملتے ہیں دوسرا یہ کہ جو لوگ دیکھتے ہیں وہ یہ چیز خریدتے بھی ہیں۔۔ لیکن ہمارے ہاں پاکستان میں اس قسم کے اپلیکیشنز کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے نوجوان نسل کو ناچنے کے سوا کچھ نہیں آتا وہ صرف ناچتے ہیں۔

دوران گفتگو میں نے سوال کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے سوال کاٹ دیا کہا میں آپکے سارے سوالوں کا جواب دیتا ہوں۔ دانشور نے بتایا کہ وقت تو بہت لگے گا اس کو ٹھیک کرنے میں لیکن اس کو ٹھیک کرنے میں چند لوگ مدد کرسکتے ہیں۔ صحافی، استاد، دانشور فلسفی اور عالم دین پہلے نمبر پر استاد آتے ہیں۔ استاد کے متعلق اس نے کہا کہ ہمارے ہاں سکولوں میں وہ لوگ اساتذہ بنے ہوئے ہیں اور بچوں کو پڑھاتے ہیں، جس کو خود یہ معلوم نہیں کہ استاد کیا ہے؟ ہمارے بچوں کو ان لوگوں کی ضرورت ہے جو ذہنی طور پر مطلب نفسیاتی طور پر درست ہوں۔ اور اس کو اس بات کا علم ہو کہ نو سال کے بچے کو کس طرح پڑھانا ہیں۔

استاد اگر فلسفی ہو تو اور بھی بہتر ہے کیونکہ فلسفی کو معلوم ہوتا ہے۔ کہ ایک مسئلے کو کس طرح حل کرنا ہے۔ مزید بتایا کہ صحافی کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے مسائل کے بارے میں لکھیں۔ آخری نمبر پر عالم دین آتا ہے عالم دین کو چاہیے کہ اپنے طالب علموں کو صرف دین نہ سیکھائیں بلکہ دین کے ساتھ اس کو جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں بھی تعلیم دے اور جدید ٹیکنالوجی اس طالب کو پڑھاۓ اور اس کا مثبت استعمال اس کو سکھائیں تب یہ خلاء ختم ہوسکتا ہے۔ مزید بتایا کہ اگر دینی طالب علم مطلب وہ طالب علم جو دین اسلام کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اس کو جدید ٹیکنالوجی سے دور رکھا گیا تو اس طالب علم کا ذہن ایک چیز تک محدود ہوگا۔ وہ صرف ایک چیز کے بارے میں سوچے گا۔

دور جدید میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں ایک طرف انسان کی زندگی کو نہایت آسان اور پر آسائش بنا دیا ہے۔ تو وہیں دوسری طرف انسان کو اپنے پیاروں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے کافی دور کردیا ہے انسان محض ایک چلتی پھرتی مشین بن کے رہ گیا ہے جسمانی طور پر وہ اپنوں کے ساتھ تو ہوتا ہی ہے لیکن ذہنی طور پر وہ کسی اور کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہے مطلب موبائل فون ہاتھ میں لیے ہر وقت اپنے دوست یاروں کےساتھ گپ شپ میں مصروف اپنے آس پاس سے مکمل بے خبر۔۔

ایک دور ہوا کرتا تھا جب ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ اس وقت بچے اپنےبڑوں اور اردگرد کے ماحول سے ہی سیکھتے تھے۔ اگرکسی دور دراز کے دوست یا رشتہ دار کی خیریت دریافت کرنی ہوتی تو خط و کتابت کے زریعے اس کام کو بخوبی انجام دیا جاتا۔

ملکی و غیر ملکی حالالت سے اپنے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے اخبار ہی واحد ذریعہ ہوتا تھا کچھ لوگ مختلف میگزینوں کا مطالعہ کرکے اپنے اس شوق کو پورا کر لیتے تھے۔ اسی طرح اگر فلم دیکھنے کا دل چاہتا تو لوگ سینما ہال جا کر اپنے دل کو تسکین فراہم کرتے۔

اسی طرح اس زمانے کے لوگوں کا ادب کے ساتھ بھی گہری وابستگی ہوتی تھی لوگ شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، کے تصانیف پڑھنے اور ان مصنفین کی کتابوں کو خریدنے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ علم و ادب سے محبت کرنے والے افراد کتابوں سے پیار کرتے تھے۔ اور خوشی سے ان کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ اس زمانے میں مصنفین لکھتے تھے۔ اور پڑھنے والے دل سے اسے پڑھتے تھے اور پڑھنے میں اتنے مگن ہوتےکہ آس پاس کی کوئی خبر نہ ہوتی۔

لیکن پھر ٹیکنالوجی کی ایک ایسی ہوا چلی کہ اپنے ساتھ سب کچھ اڑا کے لے گئی اور ابھی تک اپنے ساتھ اڑا لے جارہی ہے کافی حد تک بہت ساری تبدیلیاں آگئی ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی وژن، کمپیوٹر اور موبائل فونز دن بدن جدید سے جدید ترین ہوتے جارہے ہیں۔ اب آج کے دور میں ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ اس ایک الیکٹرانک آلے نے سب کچھ چاہے خط و کتابت ہو یا علم و ادب سے محبت یا محنت و مشقت کے طریقے سب کچھ بدل کے رکھ دیا ہے۔

اس ایک موبائل فون کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ بھی قائم رکھے ہوے ہیں۔ تو دوسری طرف اسے گھر بیٹھے آن لائن کاروبار کے ذریعے آمدن کے طور پر بھی استعمال میں لایا جارہا ہے اس کے ذریعے فلم ڈرامہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ تو آن لائن بینکنگ کے ذریعے باری رقوم بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔ کتابیں، اخبارات، میگزین، ملکی و غیر ملکی خبریں دیکھ اور پڑھ بھی سکتے ہیں اس کے علاوہ اس ایک الیکٹرانک آلے کے ذریعے انسان بہت کچھ کر سکتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود سائنس نے انسان کو بہت زیادہ سہولیات دیں کر ان کو تنہا کر دیا ہے۔ اس حوالے سے بعض دانشور کہتے ہیں۔ کہ یہ کائنات جو ہم دیکھ رہے ہیں جس میں ہزاروں لاکھوں سیارے ستارے گردش کر رہے۔ یہ ہماری بیرونی دنیا ہے۔ لیکن اس بیرونی دنیا سے بڑی کائنات ہمارے اندر ہے۔

سائنس نے انسان کو بہت سہولیات دے کر تنہا کر دیا سماج سے اس کا رابطہ منقطع ہو کےرہ گیا آج کا انسان ایک بند کمرے میں بیٹھ کر سب کچھ بھی کر سکتا ہے۔ آن لائن کتابیں بھی پڑھ سکتاہے مختلف ایپس کے ذریعے ایک دوسرے سے ویڈیو کال پر بات بھی کر سکتا ہے۔ لیکن وہ مزہ وہ سکون نہیں ہے جو سکون خط و کتابت میں ہوتا تھا۔ یا لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنے میں ہوتا تھا۔ ان سب سہولیات کے باوجود آج کے دور کا انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہے آج کے اس جدید دور میں ٹیکنالوجی نے ترقی تو کی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سی نفسیاتی بیماریوں کو جنم بھی دیا ہے۔

آج کے انسان کا سماج اور معاشرے سے رشتہ بہت کمزور ہوگیا ہے۔ ایک وقت یہ بھی تھا کہ لوگ حجروں میں بیٹھ کر۔ ایک دوسرے سے ملتے اپنا دکھ غم خوشی شریک کرتے۔ اس سے انسان کو یہ فائدہ ہوتا تھا کہ انسان کے ذہن میں جو کچھ ہوتا وہ ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرنے سے دور ہوجاتی لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں، کیونکہ آج کے دور میں انسان کا ادب کے ساتھ رشتہ بہت کمزور ہے۔

ہر شخص سائنس کے پیچھے بھاگ رہا ہےوہ یہی سمجھتا ہے کہ زندگی کا اصل مزا تو سائنس میں پنہاں ہے۔ آج کے دور میں بہت کم لوگ لٹریچر کو پڑھتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے معاشرے، سماج میں ایک بگاڑ پیدا ہوا ہےہر شخص اس جدید ٹیکنالوجی میں سکون تلاش کر رہا ہے۔ مگر وہ اسے نہیں مل رہی کیوں سکون کا تعلق دولت اور شہرت سے نہیں ہے میں نے پہلے بھی بتایا کہ دانشور کہتا ہے کہ انسان کے اندر کی کائنات باہر کی کائنات سے کافی بڑی ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے اندر کی کائنات کو دیکھنا اور اس کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi