Retirement Ka Almiya
ریٹائرمنٹ کا المیہ
کبھی وہ وقت تھا کہ خواتین اپنی عمر چھپایا کرتی تھیں اب مرد بھی چھپاتے ہیں لیکن برا ہو اس سرکاری نوکری کا کہ فوراََ ہر خاص و عام کو سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے کہ صاحبہ یا صاحب 60 برس کے ہو گئے اور ریٹائرڈ۔ سوشل میڈیا سے سن چھپایا جا سکتا ہے لیکن ڈاکٹر کامران کاظمی اور ان کے تلامذہ ریٹائرمنٹ کو طشت از بام کرنے میں اب بہت مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ اس لیے چھپانا ممکن ہی نہیں رہا۔
ریٹائرمنٹ مطلب یعنی زندگی ختم۔ اب کوئی خواہش، کوئی آرزو، کوئی خواب، کوئی خیال کوئی آدرش نہیں رہا۔ اسے خوشبو، کتاب، موسیقی، محبت، شاعری، مظاہرہ فطرت، سفر، تفریح، آئس کریم، کافی سے اب کوئی سروکار نہیں۔ ریٹائرڈ کو صرف کھانے سونے اور نمازیں پڑھنے کے علاوہ اب کچھ نہیں۔ وہ سماج میں ایک عضوِ معطل ہے جو بس جیے جا رہا ہے۔ اسی لیے شاید پہلے جب کوئی ریٹائرڈ ہوتا تھا تو دفتر کی طرف سے اسے ایک ٹوپی، ایک مصلہ اور ایک تسبیح تحفہ دیا جاتا تھا کہ جاو صاحب اب اللہ اللہ کرو، تم سے اب کوئی محو کلام نہیں ہوگا اس لیے تسبیح رولو اور محلے کی مسجد کمیٹی کے ممبر بنو، گھر کی فالتو لائٹیں آن آف کرو۔
نماز کے وقت سے پہلے مسجد پہنچو اور پنکھے چلاو بتیاں جلاو۔ مسجد کے بند ہونے تک وہیں قیام فرماو، گھر میں اور سماج میں اب تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں۔ لیکن ڈاکٹر نجیبہ عارف کو ٹوپی مصلہ تسبیح دینے کی چنداں ضرورت نہیں، ٹوپی وہ پہنتی نہیں، مصلہ اور تسبیح ان کے پاس پہلے سے موجود ہے جو دفتر میں بھی موجود تھا۔ انہیں لفظوں کے نذارانے اور پھول پیش کیے جا رہے ہیں گو انہیں ان پھولوں کی بھی ضرورت نہیں ان کے آنگن میں گرینڈ چلڈرن کی شکل میں مہکتے پھول موجود ہیں جنہیں پھلتا پھولتا دیکھ کر یہ روزانہ معطر ہوتی رہیں گی۔ سماج میں بھی اور بہت سے دلوں میں بھی ڈاکٹر نجیبہ عارف کے لیے ڈھیر ساری جگہ ہے اس لیے انہیں فکر کاہے کا۔
اب صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیسے خوشی منائی جا رہا ہے کہ کوئی اپنی کامیاب اننگ کھیل کر رخصت ہو رہا ہے۔ مرد ہوتا تو اس کے بعد وہ گھر کا سودا سلف لاتا پوتوں پوتیوں کو سکول چھوڑتا سکول سے واپس لاتا۔ دہی اور دودھ لاتا۔ یہ لاتا وہ لاتا لیکن ڈاکٹر نجیبہ تو خاتون ہیں یہ فریضہ بھی عارف جمیل صاحب کو ادا کرنا پڑے گا وہ اس سے مستثنی ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے یہاں معاملہ مختلف ہے ایک کامیاب عورت کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ ہے اور وہ ہیں جناب عارف جمیل صاحب۔
نوآبادیاتی چالیں دیکھیے کہ ہمیں 60 برس میں سٹھیا جانے کا سرٹیفیکیٹ دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے جب کہ گورے 65 یا 70 برس کے بھی نہیں سٹھیاتے۔ ہم معصوم کیا کر سکتے ہیں کہ سارے کالے سفید قانون ان کے جانے کے بعد بھی سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ گذشتہ برس میرے دوست ڈاکٹر صلاح الدین درویش بھری جوانی میں ریٹائرڈ ہو گئے اور لوگوں کو حیران پریشان جنگل بیابان کر دیا۔
دوسرا دھچکا ڈاکٹر عزیز ابن الحسن کی صورت میں لگا آپ خود لاحظہ فرمائیے کہیں سے لگتے ہیں کہ انہیں گھر کا سودا سلف لانے، یہ لانے، وہ لانے پر مامور کر دیا جائے۔ اب باری ڈاکٹر نجیبہ عارف کی ہے آپ ان کے سفید بالوں پر مت جائیے یہ آج کل فیشن ہے خواتین ڈھیر سارے پیسے خرچ کرکے کسی مہنگے سے پارلر سے یہ کلر کرواتی ہیں جب کہ ڈاکٹر صاحبہ کو رب نے بنا پیسے خرچ کیے یہ تحفہ عطا کر دیا اور یہ روپ بھی ان پر خوب جچتا ہے۔ وہ ابھی بھرپور جوان ہیں۔ اب اس بات سے آپ یہ مطلب مت نکالیے گا کہ میں اپنی وکالت کر رہا ہوں کیونکہ میں ڈاکٹر نجیبہ عارف سے چار چھ ماہ ہی چھوٹا ہوں۔
عموما ہمارے شاعر دوست ریٹائرڈ ہونے کے بعد جز وقتی سے کل وقتی شاعر اور مشاعرہ باز ہو جاتے ہیں اور اکثر کلام میں لذت اور چاشنی نہ ہونے کے باوجود صدرِ مشاعرہ قرار پاتے ہیں۔ گو ڈاکٹر نجیبہ عارف بھی "معنی سے زیادہ" کی شاعرہ ہیں یہ للک انہیں بچپن سے ہے جس کی چشم دید گواہ حمیدہ شاہین یہاں موجود ہیں جو اس امر کی گواہی دیں گی لیکن اب انہیں صدرِ مشاعرہ ہونے میں بھی شاید لذت محسوس نہ ہو اب اکادمی ادبیات پاکستان کی چیئرپرسن ہونے کے سبب انہیں روزانہ کسی نا کسی تقریب کی صدارت کے فرائض ایسے ادا کرنا پڑتے ہیں جیسے صدر پاکستان ہر 14 اگست کو پرچم کشائی کرکے اپنے صدر ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
اکادمی کی چیئرپرسن ہونے سے یاد آیا کہ بہت عرصہ قبل جب اکادمی کے چیرمین کی نشت خالی تھی کسی نے فیس بک پر لکھا کہ کمنٹس میں لکھیے کون اس نشت کے لیے موزوں ترین شخص ہے۔ ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے ڈاکٹر نجیبہ عارف کا نام لکھا اور میں نے ان کی بھرپور تائید کی۔ کسی نے سوال کیا کہ وضاحت کی جائے تو ڈاکٹر صاحبہ کی معلوم من جملہ خصوصیات درج کر دیں جو دیگر ناموں میں سب سے زیادہ تھیں۔
دیکھیے اگلے دورانیہ میں ڈاکٹر حمیرا اشفاق اور میری امید بر آئی۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کل وقتی شاعرہ کب بنتی ہیں جو بظاہر ناممکن سا لگتا ہے کیونکہ ان کے پاس لکھنے اور پڑھنے کے لیے بہت کچھ ہے اور پڑھانے کے لیے طلبا و طالبات اور جامعات جو ان کی علمی ادبی تحقیقی مدیرانہ صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گی کیونکہ وہ اول و آخر ایک استاد ہیں اور استاد کبھی ریٹائرڈ نہایت ہوتا۔
گو یہ بات فوجیوں کے لیے کی جاتی ہے کہ مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا۔ لیکن میری اس عرض سے یہ مت سمجھ لیجیے گا کہ شاعر پڑھتے ہیں لکھتے نہیں ہاں کچھ شعرا کرام بالکل خالص ہوتے ہیں اور خالص رہنا چاہتے ہیں مبادا کسی کو پڑھ لیا تو ان کے کلام پر کسی دوسرے کے اثرات مرتب نہ ہو جائیں۔ بس یہی خوف انہیں خالص رکھتا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ سے براہ راست گفتگو کے مواقع کم ملے گو میری خواہش رہی کہ ان سے دنیا بھر کے معاملات پر طویل گفتگو کا شرف حاصل ہو حالانکہ ایک ہی ادارے میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت گزرا لیکن ان سے مختلف میٹنگز سیمنارز کانفرنسوں میں سیکھنے کو بہت کچھ ملا اور میں نے سیکھا۔ گفتگو کے مواقع ان کی اعلی عہدوں پر فائز رہنے کے سبب ان کی ذمہ داریوں کا بہت زیادہ ہونا اور وقت کا میسر نہ آنا ہی ہے۔ ویسے بھی میں عادتا اعلی افسران سے دور ہی رہا ہوں وہ اس لیے کہ قریب آنے کے گروں سے ہمشہ ناواقف رہا گو ڈاکٹر صاحبہ اس قماش کی افسر نہیں رہیں جن کی اگاڑی سے بچ کر چلنے کی نصیحت بزرگ کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ ڈاکٹر نجیبہ نے شعبہ اردو خواتین کی سربراہی چھوڑی اور چند دنوں کی فراغت پائی ایک روز میں ان کے خدمت میں بے سبب حاضر ہوا۔ ایک عدسہ ان کی میز پر دیکھ کر سوال داغ دیا تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحبہ دیگر بے شمار خوبیوں کے علاوہ چہرہ شناس ہونے کے ساتھ ساتھ دست شناس بھی ہیں۔ یہ بھی کھلا کہ صوفیانہ طرز علاج ہومیوپیتھی کی بھی باقاعدہ سند یافتہ اور پریکٹیشنر رہی ہیں اور میٹھی پڑیاں باندھنے کا تجربہ بھی رکھتی ہیں۔ ہومیوپیتھی کو میں تصوفانہ طریقہ علاج سمجھتا ہوں جس کا برائے راست تعلق تزکیہ نفس سے ہے۔ سو ڈاکٹر صاحبہ ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سوں کی بے روزگار نہیں رہیں گی انہیں بے شمار ہنر آتے ہیں۔
میں احسان یاد رکھنے والوں میں سے ہوں اور دوست بھی نبھانے کی مکمل کوشش کرتا ہوں۔ مجھے یہ اعتراف کرنا ہے کہ جب بھی میں کسی نجی یا سرکاری کام کی غرض سے ڈاکٹر نجیبہ عارف کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے مجھے نراش نہیں کیا۔ ان کا رویہ ہمیشہ بڑی بہنوں کا سا رہا۔ انتہائی حلیم الطبع، خوش اخلاق، خوش گفتار، خوش اطوار، ذہین، تصوفانہ رجحانات کی حامل ہیں جس کا سلسلہ شاید ممتاز مفتی سے ابتدا ہوتا ہے۔ وہ ایک بہترین اور محبوب استاد، بہترین افسر، بہترین محقق، بہترین مدون، بہترین مدیر، بہترین شاعرہ بہترین فکشن نگار ہیں اس کے لیے جو جشن برپا کیا گیا ہے یہ ان کی شایان شان ہے۔
آج ڈاکٹر نجیبہ عارف کے دوست اور شاگرد دور دراز سے سفر کرکے یہاں پہنچے ہیں کہ اپنی استاد کو ہدیہ تبریک پیش کریں۔ اس امر سے واضع ہے کہ وہ کیسی محبوب استاد ہیں۔ طلبا و طالبات بہت چالاک ہوتے ہیں صرف اس استاد سے ہی محبت کرتے ہیں جو ان کے علم میں اضافے کا باعث بنے گو دوران تعلیم وہ گریڈوں کے لیے ہر ایک کی تعریف کرتے ہیں اور فارغ التحصیل ہو جانے کے بعد مڑ کر بھی نہیں دیکھتے لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے بہت سے چراغ روشن کیے، بہت سوں کے روزگار کا وسیلہ بنیں یہ کام ہمارے استاد مرحوم ڈاکٹر رشید امجد جنت مکانی بھی کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحبہ کا تعلق خوشاب سے ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ کالج کے زمانے میں اپنی شعلہ بیانی کے سبب بین الاکلیاتی مباحثوں میں ٹرافی جیت لانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ مشاعروں میں آپا حمیدہ شاہین کا ساتھ میسر رہا تو آپ سوچیے کہ دو انتہائی تخلیقی اذہان اور بھرپور وفور ہو تو کیوں نہ مشاعرے بھی لوٹ لیں۔ آج حمیدہ شاہین بھی موجود ہیں اور مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میں بھی انہی کے ضلع سے ہوں اور ہم دونوں شاعر ہونے کی شہرت بھی رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف کے لیے درازئی عمر، صحت و سلامتی، مزید ترقیوں اور تخلیق میں برکت کی دعائیں ہیں۔