1.  Home/
  2. Blog/
  3. Amirjan Haqqani/
  4. Aah Maulana Abdul Qayum Tangiri

Aah Maulana Abdul Qayum Tangiri

آہ مولانا عبدالقیوم تانگیری

یہ 99 کی بات ہے۔ میں جامعہ اشرف العلوم کراچی میں حفظ قرآن کا طالب علم تھا۔ مولانا عبدالقیوم صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس نظامی کی تکمیل کررہے تھے۔ وہ دورہ حدیث کے طالب علم تھے۔ ہم سال بھر جمعہ کے دن دارالعلوم کراچی آیا کرتے تھے۔ یہی مولانا کے ساتھ علیک سلیک تھی۔ اور تعلق بنا اور آج تک قائم ہے۔

دارالعلوم کراچی میں وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات کے سوا دارالعلوم کے اپنے بھی سالانہ امتحانات ہوتے تھے۔ عبدالقیوم صاحب لوگ دورہ حدیث کی تکمیل کے بعد سالانہ امتحانات دے کر، تانگیر چلے گئے تھے۔ جب ہم نے جامعہ دارالعلوم کراچی کے دورہ حدیث کے نتائج دیکھے تو حیرت ہوئی، مولانا عبدالقیوم دورہ حدیث کے ٹاپر تھے۔ اول پوزیشن تھی۔ یاد رہے تب دارالعلوم کراچی میں صرف پاکستان کے طلبہ نہیں پڑھتے تھے، بلکہ دنیا جہاں کے بیرونی طلبہ ہوتے تھے، بالخصوص افغانستان، ایران، روس، روس سے آزاد چھ ریاستیں، بنگلہ دیش، برما، افریقی ممالک، عرب ممالک، ملائشیا، ترکی اور مغربی ممالک کے طلبہ دینی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ان سب ممالک کے ذہین ترین طلبہ میں تانگیر جیسے پسماندہ علاقے کا ایک طالب علم کا اول پوزیشن لینا انتہائی حیرت کی بات تھی۔ یہ اس بات کی بھی دلیل تھی کہ مولانا عبدالقیوم انتہائی فہیم، ذکی اور غیر معمولی حافظہ، ذہانت کے مالک اور لائق فائق انسان ہیں۔ یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ مولانا عبدالقیوم نے دورہ حدیث کے علاوہ تمام کتب و درجات دیامر و کوہستان میں ہی پڑھی ہیں۔ اگر وہ ابتدا سے ہی دارالعلوم کراچی میں پڑھتے تو بحرذخار ہوتے۔

بہر حال میں نے مولانا کو تانگیر ان کی پتہ پر خط لکھا اور اول پوزیشن کی مبارک باد دی۔

مولانا عبدالقیوم تانگیری صاحب فراغت کے بعد فیصل آباد اور کشمیر میں کئی سال درس نظامی کی بڑی کتابیں اور دورہ حدیث کی کتب پڑھاتے رہے، اور علمی اور عوامی اجتماعات میں تقاریر کرتے رہے۔ پھر اپنے آبائی گاؤں تانگیر شفٹ ہوئے اور ایک بڑے ادارے دارالعلوم تانگیر کا آغاز کیا۔

مولانا ضلع دیامر کے انتہائی معتدل عالم دین ہیں۔ انہوں نے ایک دن سکول کالج میں نہیں پڑھا، لیکن سکول و کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کو ضلع دیامر میں رواج دینے میں سب سے بڑے داعی ہیں۔ ایک معتدل عالم دین کی خصوصیات مولانا عبدالقیوم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔

عالم دین وہ ہوتا ہے جو علمی تعلیمات میں ماہر ہوتا ہے اور اپنے علمی فضاؤں اور حلقوں میں معروف ہوتا ہے۔ اچھے اخلاقی اصولوں کا داعی اور عامل ہوتا ہے۔ دوسرے لوگوں کے مختلف عقائد اور خیالات و افکار کا احترام کرتا ہے۔ اگر تردید کرنا بھی ہوتو دلیل و برہان سے کرتا ہے۔ ایک اچھا عالم دین سماجی و معاشرتی مسائل میں مدد فراہم کرتا ہے اور دینی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کی مشکلات کا حل تلاش کرتا ہے۔ اچھا اور معتدل عالم دین قران و حدیث کی تعلیمات کے علاوہ، متفرقہ علوم میں بھی ماہر ہوتا ہے تاکہ معاشرتی اور سماجی و فقہی مسائل کا حل نکال سکے۔ اور ساتھ ابلاغی اہمیت کو جانتے ہوئے دینی تعلیمات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کے لئے دعوتِ اسلامیہ میں مصروف رہتا ہے۔

مولانا عبدالقیوم ایک طویل عرصے سے ضلع دیامر میں بالخصوص ان خدمات میں مصروف ہیں۔ اور ایک شاندار مقرر اور مدرس بھی ہیں۔

وہ انتہائی معتدل خیالات و افکار کا مالک اور داعی ہے۔ فتوٰی کی زبان سے بہت دور ہے۔ اعتدال کی بات کرتے ہیں۔ مکالمہ و مباحثہ پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاد کے نام پر سرمچاری اور افواج پاکستان اور دیگر سرکاری عمال کے ساتھ دھینگا مشتی اور مسافروں اور سیاحوں کیساتھ بدسلوکی کے سخت مخالف ہیں۔ جدید علوم اور خواتین ایجوکیشن کو رواج دینے کے مبلغ ہیں۔ عوامی اجتماعات میں اپنے خیالات کا اظہار بلاکم و کاست کرتے ہیں۔ اور اہل علم و تحقیق کیساتھ ان موضوعات پر ہمیشہ مکالمہ بھی کرتے ہیں۔ اور دلیل سے اپنی بات سمجھانے کے ماہر بھی ہیں۔ داریل، تانگیر، دیامر اور کوہستان کے کبار علماء و مدرسین سے علوم و فنون حاصل کیے ہیں۔ ان سب کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے متشددانہ افکار و نظریات کی تردید بھی کرتے ہیں۔ انتہائی مدلل گفتگو کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث، تفسیر، فقہ اور علوم عقلیہ کی بنیادی کتب کا خوب مطالعہ کر رکھا ہے۔ مجلسی گفتگو، علمی مکالموں اور عوامی اجتماعات سے خطبات کے دروان ان کتب کے حوالے دیتے رہتے ہیں۔ عربی اور اردو ادب کا کمال مطالعہ ہے۔ اقبال کے سینکڑوں اشعار زبانی ہیں۔ معروف شعراء کی شاعری ترنگ لہجے میں پڑھتے ہیں اور خوب پڑھتے ہیں۔

مولانا اپنے ان افکار و نظریات اور اعلانیہ تبلیغ کی وجہ سے کچھ عرصہ ریاستی اداروں کے عتاب میں بھی رہے، یعنی مسنگ پرسن رہے۔ لازمی بات ہے کہ ان اداروں کو ایسے معتدل علماء کہاں بھاتے ہیں۔ انہیں تو متشدد، جذباتی اور علم و عقل اور افہام و تفہیم سے عاری لوگ ہی اچھے لگتے ہیں۔ اہل علم کی سرپرستی تو کیا ان کی زندگیوں میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ اس رویے سے انہیں باز رہنا چاہیے۔

میں جب بھی ان سے ٹیلیفونک بات کرتا ہوں تو عربی میں ہی گفتگو کرتا، مولانا خوبصورت عربی بولتے ہیں۔

پچھے سال مولانا شدید بیمار ہوئے۔ فالج کا اٹیک بھی ہوا ہے۔ میں نے ان کی بیماری کے دوران رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی مگر نہ ہوسکا۔ پھر اپنی بھول بھلیوں میں کھوگیا اور کچھ یاد ہی نہ رہا۔

مولانا عبدالقیوم جب بھی گلگت آتے ہیں تو مجھے ضرور یاد کرتے ہیں۔ اور کہتے تھے، امیرجان، آپ کے تعلقات ادباء و شعراء کیساتھ اچھے ہیں۔ کبھی ان کے ساتھ ہماری کوئی مجلس رکھیں۔ صرف ادب اردو کی بات کریں گے۔ کئی دفعہ علمی موضوعات پر ان سے گفتگو ہوئی۔ کچھ دن میرے گھر میں بھی قیام کیا۔ علمی اجتماعات میں ساتھ ساتھ تقاریر بھی کیں۔ وہ علمی حلقوں میں بہت معروف ہیں۔

آج مفتی رستم صاحب نے فون کیا اور اپنے ادارے دارالقرآن میں ختم قرآن اور دستار فضیلت کے پروگرام میں دعوت دی۔ مفتی صاحب سے معذرت کیا تو انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالقیوم تانگیری صاحب آپ کو یاد کررہے ہیں اور موبائل انہیں پکڑا دیا۔

میں نے علیک سلیک کے بعد حسب سابق عربی میں گفتگو شروع کی۔ مولانا سنتے رہے۔ میں نان سٹاپ بولتا رہا۔ اور ان سے اپنی مصروفیات کا ذکر کیا اور آنے سے معذرت کی مگر انہوں نے انتہائی خفیف آواز میں کہا۔ ارید ان اذھب غدا یعنی میں کل جارہا ہوں، آپ آئیں گے تو ملاقات ہوگی۔ مجھے ان کی گفتگو میں لکنت سے لگی۔ وہ پہلا والا دبنگ لہجہ اور آواز بھی نہیں تھی اور نہ ہی گفتگو میں تسلسل۔

مجھے یاد آیا کہ مولانا ایک سخت بیماری سے گزر کر دوبارہ جی رہے ہیں اور میں بیمار پرسی بھی کرنے سے قاصر رہا ہوں۔ فوراً گلگت جوٹیال کی طرف رخت سفر باندھ لیا اور تقریب شروع ہوتے ہی پہنچ گیا۔

مولانا سے ملا، حیرت ہوئی اتنا جسیم اور صحت مند انسان سوکھ کر کانٹا ہوگیا ہے۔ آواز بھی بہت پتلی ہوئی ہے۔ تقریب میں مجھے بھی گفتگو کا موقع دیا گیا۔ قرآن کریم کے حقوق پر مختصر بات کی۔ مولانا عبدالقیوم کو بطور چیف گیسٹ خطاب کے لیے بلانے کی، ذمہ داری مجھے دی گئی۔ میں عموماً غیر ضروری القابات اور لمبے چوڑے تعارف کروانے کا عادی نہیں مگر مولانا عبدالقیوم کی علمیت و اعتدال اور کثرت مطالعہ اور فہم قرآن و حدیث اور علمی موضوعات پر ان کا انداز مکالمہ کا معترف ہوں تو ان کی تعریف و توصیف اور تعارف کیساتھ انہیں آخری خطاب کے لئے بلایا۔

میں نے ان کے بہت سارے خطبے سنے تھے۔ ان کی تقریر آیات و احادیث اور مراجع کتب کی عبارات، عربی و اردو اشعار اور اکابر علماء کی کتب کے حوالوں سے مملوء ہوتیں تھیں۔ لیکن آج ان کی زبان و لہجہ میں وہ دبدبہ ہی نہیں تھا۔ وہ ترنگ ہی غائب تھا، جو عموماً ہوتا تھا۔ بیماری نے ان کے حافظہ پر برا اثر کر ڈالا ہے وہ کوئی آیت یا حدیث پڑھنا شروع کرتے اور پورا نہ پڑھ سکتے، کتابوں کے نام لیتے، عربی عبارات پڑھنے کی کوشش کرتے مگر پوری نہ کر پاتے۔ اقبال کے بہت سے اشعار بھی سنائیں، لیکن اٹک اٹک کر۔ انہیں تو نام بھی پورے یاد نہیں رہے تھے۔ تقریر اور اشعار پڑھنے میں خوب طرز لگاتے تھے آج طرز بھی نہ لگا سکے۔ الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ جاتے مگر وہ پھر بھی ادھا گھنٹہ مسلسل بولتے رہے۔ بہر حال ان کی یہ حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ سامعین ان کو پہلے بھی سنتے رہے تھے۔ سب دکھی تھے۔ ڈاکٹروں نے انہیں تدریس، تقریر اور مطالعہ سے منع کیا ہے مگر وہ کہاں رکنے والے۔

انہوں نے عجیب بات بتائی کہ بیماری کے دوران انہیں صرف سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص یاد تھیں باقی سب کچھ بول گیا تھا۔ یا اسفا علی ذالک

تاہم اب مولانا کی صحت کیساتھ حافظہ میں محفوظ مطالعہ بھی ریکور ہورہا ہے۔ اللہ کرے جلد مکمل صحت یاب ہوں۔ مجھ سے گلہ بھی کیا کہ آپ سے 24 سالہ تعلق ہے، مگر آپ نے خبر تک نہیں لی۔ میں بہت شرمسار ہوا لیکن غم دوراں اور مصروفیات نے اتنا گھیر رکھا ہے کہ مولانا عبدالقیوم جیسے عالم دین کے پاس تانگیر جانے کی فرصت بھی نہ مل سکی۔ اور اپنی کسالت کی وجہ سے ٹیلیفونک رابطہ بھی نہ کرسکا۔

مولانا ایک علمی اثاثہ ہیں۔ ضلع دیامر میں ان سے بڑا معتدل اور صاحب مطالعہ عالم دین کوئی نہیں سوائے شیخ الحدیث مولانا عبدالقدوس کے۔ اگر مولانا عبدالقیوم صاحب کو معاشی بکھیڑوں سے آزادی ملی تو وہ یقیناً بہت بڑا علمی مقام پیدا کرسکتے ہیں۔ تانگیر کے ایک دور دروز گاؤں میں فکر معاش سے آزاد ہونا بہت مشکل ہے۔ اسی وجہ سے بڑے بڑے ذہین اور ٹیلنٹ علماء وہ مقام پیدا نہیں کرسکتے جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ اللہ اس باب میں ان کی خصوصی مدد و نصرت فرمائے۔

Check Also

Pakistani Cubic Satellite

By Zaigham Qadeer