Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aleen Sherazi/
  4. Dastaan e Alif

Dastaan e Alif

داستانِ الف

"الف" یعنی تخلیقِ خدا کا سب سے منفرد حرف، جِس کی تشریح کے لیے ہر حرف ناکافی ہے۔ جس میں کائنات کے تمام جہانوں کے ملکوتی راز سموئے ہیں۔ اِس داستان کا آغاز، تخلیقِ آدم ہو یا روزِ نزولِ ﷺ، یہ سراسر عشق اور محبت کے بِے کراں سمندرکا مظہرہے۔ "الف"، اللٰ٘ہ اور انسان کا وہ رشتہ جو سمندروں کی تہوں میں چُھپے موتیوں سے گہرا اور شہد سے ہزار ہاں نسبت، شیریں ہے۔ عشق، محبت اور عقیدت و احترام کے حَسیں اِمتزاج کا نام "خدا "ہے۔

بعید اَز قیاس ہے کہ وہ اپنی خلقت کو تاریکیوں میں اوندھا دے، جب کہ وہ اپنے بندوں پر مہربان اور ان کا جاں سوز دوست ہے۔ مگر سوائے اِسکے کہ انسان محبت کی اِس ڈور کو بے وفائی کے زہر سے کاٹ ڈالے تو پھر بےشک وہ بڑا بے نیاز پروردگار ہے۔

آج کے دورمیں لوگوں کی محنت کی کمائی پر پَلنے والے علماء نے خدا کی ایسی تصویر بنا دی ہے کہ گویا ہماری زندگی کی اِس داستان میں وہ کوئی "وِلَن"ہے، اور یہ لوگ اُس کے دین کے ٹھیکیدار ہیں جو ہر دوسرے انسان کو جنت یا جہنم کا ٹکٹ تھمانے کے لئے اِس دنیا میں آئے ہیں۔ ذرا سوچئے! کہ وہ ذات جو اپنے کسی اولوالعزم نبی کو بھی اپنے کسی بندے کی تحقیر کی اجازت نہیں دیتی اُسے یہ اجارہ داریاں کیونکر برداشت ہوسکتی ہیں؟

کوئی یہاں درگاہ کے پیر صاحب ہیں تو کوئی مسجد کے مولوی، کوئی بارگاہوں کے ذاکرین ہیں تو کوئی مدارس کے مُلا صاحبان! یہاں خدا مختلف اشکال میں، مختلف داموں پر مختلف اسلامی اسٹالز پر بکتا ہے اور ہم جیسے احمق انسان اپنے خون خرچ کرکے حاصل کیے ہوئے رزقِ حلال سے، اِن کالی بھیڑوں، کی دہائیوں تک آنے والی نسلوں تک کو سامانِ عیش فراہم کرکے اِس کے خریدار بن بیٹھے ہیں۔

اُسے پانے کیلئے، کبھی کالے بکروں کی بَلی چڑھا رہے ہیں تو کبھی درگاہوں پہ چڑھاوے، جو ہماری شہِہ رگ میں سمائے بیٹھا ہے۔ یہ اسلام کسی مفتی یا ولی و پیر کے گھر کی کنیز ہے کیا، جِسے وہ کاروبار بنائے بیٹھے ہیں؟

یقیناً ہرگز نہیں! یہ تو تاریخِ انسانی کا سب سے حَسین مذہب ہے جِس کو اولادِ پیمبر نے اپنے خون سے سینچ کر "روحِ دوام" بخشی ہے۔ تو پھر اِس امانتِ خدا کے نگہبان بنئیے اور اُن عشق کے تقاضوں کو پوراکیجیے جِس کا وعدہ روزِ خلقتِ آدمؑ سے انسانوں کے "جَد" آدم سے لیا گیا ہے۔

وہ خدا جس کے ہم، کبھی مسجد میں توکبھی مندر میں، کبھی چرچ تو کبھی آتش کدوں میں، کبھی بستیوں تو کبھی ویرانوں میں، صدیوں سے متلاشی ہیں۔ وہ تو یہ ساری وسعتیں چھوڑ کر ہمارے اندر ہی دِل بن کر دھڑک رہا ہے، خون بن کر رگوں میں رواں ہے، وہ تو ہماری آنکھوں کی بصارت میں جما بیٹھا ہے، وہ ہماری ارواح کی بصیرت ہے اور وہ کچھ بھی تو نہیں ہے سوائے محبت کے کہ نہ وہ گناہ کرنے کے بعد بندے کو طعنہ دیتاہے اور نہ ہی اُسے شرمندہ کرتا ہے بلکہ کسی روتے ہوئے بچے کی طرح اپنے بندے کو اپنی رحمت کی گرم آغوش میں لے لیتا ہے، گویا وہ ہی ہر مودت کی انتہا ہے، ہر منظر حَسین تَر ہے فقط اُس کے ہونے سے! اُس کی رحمت کا دریا بے کراں ہے!

تُم اُٹھو تو سہی! ہاتھ تو بڑھا کر دیکھو، اپنی خطاؤں کے باوجود اُس کی محبت میں ہرگز کوئی کمی نہ پاؤگے کیونکہ وہ وہی ہےجو اپنے بندے پر بڑا رؤف اور مہربان ہے۔

عبادتیں قبول ہوں یا نہ ہوں ندامتیں ضرور قبول ہوتی ہیں، اور یہی توبہ کا فلسفہ ہے!

Check Also

Mein Aap Ka Fan Hoon

By Rauf Klasra