Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Akhtar Hussain/
  4. Qaidi Muashre

Qaidi Muashre

قیدی معاشرے‎‎

جب ایک فرد قانونی حکم کے مطابق قید کی سزا کاٹ رہا ہو" قیدی" کہلاتا ہے۔ فرد کی طرح بعض معاشرے بھی قیدی ہوتے ہیں، جس میں بظاہر تو چہل پہل اپنے جوبن پر ہوتی ہے لیکن انسانوں کے سمندر میں موجود افراد کے اندر ایک عنصر ناپید ہوتا ہے جسے " اطمینان، سکون اور Satisfaction " کہتے ہیں، لوگوں کے دل و دماغ میں ایک انجانا سا ڈر ہوتا ہے۔ اس خوفناک ڈر کی بنیادیں ٫٫ ناانصافی، پر کھڑی ہوتی ہیں۔

تاریخ دان ایسے معاشروں کو " قیدی معاشرے" تحریر فرماتے ہیں، جس میں سلاخیں تو نظر نہیں آتی لیکن ان دکھی (Unseen clutches) موجود ہوتے ہیں۔ جنہوں نے معاشرے کو جکڑ کر شعوری معذور بنایا ہوتا ہے، جہاں وسائل تو ہوتے ہیں، لیکن محض کاغذوں پر پرنٹیڈ ڈیٹا کی حد تک، جہاں حاکم وقت اپنے صوابدیدی اختیارات سے جب چاہے، جسے چاہے محض جنبش قلم سے مالامال کر دے یا بے توقیر کر دے۔

ایسے معاشروں میں موجود افراد کے چہروں پر آپ کو ہر وقت غیر یقینی کے تھپیڑے واضع نظر آئیں گے۔ ماضی قریب میں ایسے معاشروں کی نشانیوں میں ایک یہ تھی کہ جب حاکم وقت اور ان کے اہل و عیال گھوڑوں اور بگیوں پہ نکلتے تھے، تو ان کے آگے پیچھے سیکڑوں انسان دوڑتے تھے، منادی کروائی جاتی تھی جبکہ جدید دور میں یہ ہیلی کاپٹرز و مرسیڈیز کے غول میں بدل چکا ہے۔

انسان نے ارتقائی مراحل سے کیلکولیٹر سے ٹرانسفارم ہوکر اینڈروئیڈ سکرین کا سفر تو طے کر لیا ہے لیکن آج بھی آپ کو قیدی معاشروں میں ہر بڑے آفس کے باہر بھیڑ لگی ملے گی، جو ہر روز صبح سے شام تک اس انتظار میں یہ امید لگا کر سرکار کی دہلیز پر حاضری دیتے ہیں کہ شاید آج لاٹ صاحب کو ہم پر رحم آجائے اور ہمیں ہمارا جائز حق مل جائے لیکن افسوس ہر روز اسے اپنے مسکن میں افسردہ دل ہو کر جانا پڑتا ہے۔

دوسری طرف دفاتر میں موجود افراد کا یہ حال ہے کہ وہ ہر پہلؤوں سے خود کو اس کلاس کا حصہ بنانے میں لگے ہوتے ہیں، جو طاقتور ہوکر قانون کے دائرے کو توڑ دیتے ہیں اور رہی عوام تو ان کا کام ٹیکس پہ ٹیکس دے کر اپنے بے اصول حاکموں کو اور ان کے کارندوں کو پالنا رہ جاتا ہے، انہیں ہر روز یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ ہم ہی ہیں جن کی وجہ سے تم Survive کر رہے ہو، حالانکہ وہ survival بھی ایلیٹ کلاس کو serve کیلئے ضروری ہوتا ہے۔

زمانہ قدیم میں انسانوں کو زبردستی قیدی بنا کر ان سے مشقت لی جاتی اور بدلے میں محض کھانا اور کپڑا دیا جاتا تا کہ زندہ رہ کر ہمارے تقاضوں کو پورا کرنے میں مدد دیں، پھر وقت بدلا اور جدید کہلانے والے عہد میں تنخواہ کا کلچر متعارف ہوا، جس میں معاشی جادوگروں نے کمال عیاری سے اتنا ہی رکھا کہ بقاء قائم رہے تاکہ کروڑوں افراد پر مشتمل معاشرے کو انہی کی طرح نظر آنے والوں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکے۔

اب یہ عالم ہے کہ تنخواہ دار مائنڈ سیٹ مادی خواہشات کیلئے عوام کو نچوڑتا ہے، جس سے کرپشن کا شور اٹھتا ہے۔ یہ شور جب حکمران کے کانوں کو ناگوار گزرے تو ایک کو ہٹا کر دوسرے کو لگا دیا جاتا ہے لیکن اس تبدیلی سے معاشرے کے حالات نہیں بدلتے کیونکہ ان کو لگانے اور ہٹانے والوں کی نیت اور انداز حکمرانی نہیں بدلتا۔

دس ہزار سالہ ریکارڈڈ ہسٹری گواہ ہے کہ قیدی معاشرے نئی سوچ، تخلیق اور شناخت سے محروم رہتے ہیں، ان میں بسنے والے افراد کے حصے میں ناانصافی، غربت، مہنگائی، سقوط اور عدم استحکام آتا ہے اور ان کے حکمران آپس میں دست و گریباں ہوکر کبھی جلا وطنیاں کاٹتے ہیں تو کبھی پھانسی گھاٹ مقدر بنتا ہے۔ افسوس شاید ہم بھی اپنی طرز زندگی اور انداز حکمرانی کی وجہ سے ایک قیدی معاشرہ ہی ہے جو آہستہ آہستہ زوال کی خوفناک دلدل کی طرف بڑھ رہا ہے۔

Check Also

Hojamalo

By Rao Manzar Hayat