Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aisha Fawad
  4. Dil Se Main Ne Dekha Pakistan

Dil Se Main Ne Dekha Pakistan

دل سے میں نے دیکھا پاکستان

14 اگست کے آتے ہی ہر طرف جھنڈے، جھنڈیاں اور باجے نظر آنے لگتے ہیں۔ جگہ جگہ ان چیزوں کے اسٹال لگے ہوتے ہیں اور لوگ اپنے بچوں کو بڑے شوق سے یہ سب دلوا رہے ہوتے ہیں۔ 13 کی رات آتے ہی منچلے اپنے موٹر سائیکلون کے سائلنسر نکلوا کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس طرح سے وہ ملک و قوم کی ترقی میں کیا کام کر رہے ہیں اور اس سے ان کو کیا فائدہ ہوتا ہے، سمجھ سے باہر ہے۔

آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی تھوڑی نہ ہوتا ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہوتا کہ رات گئے تک غل غپاڑہ کیا جائے اور لوگوں کا سکون درہم برہم کیا جائے۔ پوری رات اودھم مچایا جائے اور پھر اگلا پورا دن سونے میں گزارا جائےگھروں کی چھتوں اور گاڑیوں پر جھنڈے لگانا تو سمجھ آتا ہے مگر گاڑی کی ڈگی کھول کر اس میں بیٹھنا اور موٹر سائیکل کو ایک پہیے پر چلانا کچھ سمجھ میں نہیں آتا یا شاید ہم پچھلے دور میں ہی رہ گئے ہیں اور ہمیں اس جدید دور کے تقاضے نہیں پتہ۔

گھروں اور گلیوں کو ہم جھنڈیوں سے سجا تو لیتے ہیں مگر اگلے دن وہ ساری جھنڈیاں لوگوں کے پیروں تلے روندی جا رہی ہوتی ہیں اور نالیوں میں گری ہوتی ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ پر افسوس کر رہی ہوتی ہیں اور اپنی ناقدری کرنے والوں پر حیران! وہ سوال کرتی ہیں کہ کہاں گم ہو گئے وہ پیارے جو ہمارے گرنے پر ہمیشہ ہمیں چوم کر آنکھوں سے لگا لیتے اور پھر عزت سے کسی اونچی جگہ سنبھال دیتے تھے۔ ان کا ہم سے بس یہی سوال ہوتا ہے کہ کیا آزادی اسی کا نام ہے اور کیا آج تک تم لوگوں کو آزادی کا اصل مطلب ہی نہ معلوم ہو سکا۔ واہ رے انسان، کیا کہنے تیری دانائی کے؟

آزادی تو وہ تھی جو ہمارے پرکھوں نے اپنی جانوں کے نزرانے دے کے حاصل کی۔ ہماری ماؤں اور بہنوں نے اپنے ردائیں لٹا کے حاصل کیں۔ کتنی ماون کے لعل کاٹ دئیے گئے، کتنے گھر اُجڑ گئے۔ آج کل کی نسل کیا جانے؟ جن کو سب کچھ بنا بنایا مل گیا اور بنے بنائے پر تو سب ہی عیش کر لیتے ہیں مگر جب سب کچھ خود سے بنانا پڑتا ہے تو پتہ چلتا ہے۔ ہمارے آبا و اجداد نے اس ملک کو پانے کے لئے بہت سی قربانیاں دی تھیں۔ اپنے گھر بار، مال اسباب اور آس پڑوس سب کو چھوڑ چھاڑ کر اس وطن کو کوچ کیا جس کو اپنا کہ سکیں۔ اس ملک کی مٹی گواہ ہے کہ اس میں کتنے شہداء کا لہو شامل ہے۔

اس دور میں جب لوگ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان میں بسنے آ رہے تھے اور اس آس پر آ رہے تھے کہ ادھر وہ اپنے مذہبی نظریات کے مطابق زندگی گزار سکیں گے، کھل کے سانس لے سکیں گے۔ انہیں نماز پڑھتے ہوئے کوئی خوف نہ لاحق نہ ہوگا۔ کبھی ان پر کوئی ہلہ نہ بولے گا۔ ہر طرف امن و آشتی کا دور دورہ ہوگا اور شروع میں توواقعی سب ایسے ہی تھا مگر کسے پتہ تھا کہ زندگی کس نہج پر چل نکلے گی۔ وہ ملک جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر بنایا گیا تھا وہیں ایک اللہ اور ایک بنی ﷺ کے ماننے والے ایک دوسرے ہی کو برداشت نہ کر پائیں گے۔ فرقہ واریت کی ایسی جنگ چلے گی جو کبھی نہ ختم ہو پائے گی۔۔

جن مسجدوں میں ہم نے نماز ادا کرنی تھی وہیں ہمارا لہو بہا دیا جائے گا اور بہانے والا کسی کے ھاتھ نہ آئے گا۔ مساجد کے باہر لکھا جائے گا کہ فلاں فرقے کے لوگ ادھر نماز نہیں پڑھ سکتے اور تو اور آزان بھی ایک وقت پر دینے پر اعتراض ہوگا۔ اس ملک میں ایک دوسرے پر الزامات لگائے جائیں گے، بات بہ بات گالیاں دی جائیں گی۔ اشیاء مہنگے داموں فروخت کی جائیں گی۔ عام لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ بزرگوں کے تجربات سے استفادہ حاصل کرنے کی بجائے انہیں یہ کہہ کر چپ کروا دیا جائے گا کہ آپ کو کچھ نہیں پتہ قابلیت کی بجائے سفارش معیار بن جائے گی۔

تعلیم کاروبار بن جائے گی اور استاد محترم کے احترام کا وجود بھی باقی نہ رہے گا اور کچھ جگہوں پر تو استاد محترم بھی استاد کی بجائے ماہر معاشیات بنتے دکھائی دیتے نظر آئیں گے جس ملک سے محبت اور خلوص کی مہک آتی تھی اب اس کے کوچوں میں نفرت کی بدبو بسی ہے۔ گھر تو ہیں مگر مکین اتنے مہربان نہیں دکھتے ہیں۔ گلیوں اور کوچوں میں سر شام جو بزرگوں کی محفل سجتی تھی وہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اس اب زیادہ تر مکین دور کے علاقوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں اور جو کچھ بچے ہیں وہ ان لونڈوں لپاڑوں کے ڈر سے کان لپیٹے گھروں میں دپکے رہتے ہیں۔

میں اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ میں اس نئی نسل کو کیسے سمجھا سکتی ہوں کہ ملک چھوڑ کر مت جاؤ، دیکھو ابھی یہاں بھی نئی رتوں نے آنا ہے۔ ابھی ادھ کھلے پھول کھلیں گے، ابھی تو دبے پاؤں بہار آنے کو ہے۔ کچھ پل تو رکو اور میرے وطن کی مہک کو اپنی سانسوں میں بسا کے دیکھو، اس میں تمہیں اپنے پرکھوں کے خالص پن کی اپنائیت ملے گی۔

اس کو ہم کوشش کرکے پھر پہلے کی طرح امن کا گہوارہ بنا لیں گے مگر رکو تو زرا، سنو تو زرا! اور جب سب ساتھ ہوں گے ناں تو ہر مشکل آسان ہو جائے گی، جنگلوں میں بھی راستے نکل آئیں گے اور راستہ بھولے ہوئے بھی واپس لوٹ آئیں گے مگر بس کچھ دیر اور، پھر ہم بھی آزادی اچھے سے منا سکیں گے، جھنڈے لگا کر، اپنے ملک کی ترقی کے لئے دعائیں مانگ کر، سفید کپڑے پہن کر اپنے دوستوں کے سنگ گا سکیں گے، "دل سے میں نے دیکھا پاکستان، جان سے میرا دھرتی پر ایمان" اور نعرہ لگا سکیں گے۔

پاکستان زندہ باد!

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari