Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Javed Malik/
  4. Kirdar Ka Qatil

Kirdar Ka Qatil

کردار کا قاتل

اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں۔

ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی، کے لکھے کالم کی ان سطور پر پی ٹی آئی کے چاہنے والوں اور حکومتی ترجمانوں بالخصوص، جناب شہباز گِل کا شدید ردِعمل آیا۔ سوشل میڈیا پر تو جیسے بھونچال سا آ چکا ہے۔ گالم گلوچ کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ عاصمہ شیرازی نے اپنے خلاف گالیاں لکھنے والوں کی بھرپور مذمت کی۔ عاصمہ شیرازی کی حمایت میں اسلام آباد پریس کلب اُمڈ آیا، اور جناب شہباز گِل کے اسلام آباد پریس کلب میں داخلہ پر پابندی کا اعلان جاری کر دیا۔

دوسری جانب جناب شہباز گِل نے کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، عاصمہ شیرازی سے معافی مانگنے کا بیان جاری کردیا اور ساتھ یہ شرط بھی رکھ دی کہ، عاصمہ شیرازی کو خاتونِ اول کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرنے کے ثبوت دینا ہوں گے۔ جناب شہباز گِل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ، خاتون ِاول وزیراعظم کی زوجہ محترمہ ہونے سے پہلے ایک ماں ہیں اور عاصمہ شیرازی کو ایک عورت ہونے کے ناطے بیرون ملک پریس میں باپردہ بیوی، گھریلو خاتون خانہ اور سیاست سے کوسوں دور رہنے والی قوم کی بیٹی کے خلاف بغیر سوچے سمجھے، بنا ثبوت صرف اور صرف بغضِ عمران میں کالم لکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

عاصمہ شیرازی کے لکھے متنازعہ کالم کے بعد حکومت اور ٹی وی اینکرز، کالم نگاروں کی جنگ جاری ہے۔ سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر یہ لڑائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اس جنگ کی شروعات میں محترمہ مریم نواز، جناب شہباز شریف اور جناب فضل الرحمٰن کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ چوٹی کے ان اکابرین نے وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ، جناب عمران خان جادو ٹونے کے ذریعے حکومت چلا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے فدایان، عاصمہ شیرازی کو سرکاری حاجن اور مریم نواز شریف کو نانی اماں کے القابات سے نواز رہےہیں۔

رہی سہی کسر جناب بلاول زرداری نے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پوری کردی کہ، میرا اس ملک کے عوام سے اپیل ہے کہ آپ اس میڈیا کی کردار کشی پر یقین نہ کریں، آپ پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بھونکنے والے کی باتوں پر نہ چلیں۔ خاکسار چیئرمین پیپلز پارٹی، بلاول زرداری کے میڈیا کے خلاف اس تندو تیز بیان کو سن کر ششدر رہ گیا۔ حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ریکارڈ میں کسی فرد واحد پر بھی ذاتی حملہ کرنے یا اخلاق سے گری بات کرنے کی مثال موجود نہیں، ہاں مسلم لیگ ن پر الزام ہے کہ انہوں نے نصرت بھٹو اور بی بی شہید کی پگڑی اچھالنے میں ذرا دیر نہ کی۔

راقم کی نظر سے مسند احمد (7/204) اور سنن ابی داؤد (3597) کی یہ حدیث شریف گزری۔"جس نے کسی کے بارے ایسی بات کہی (الزام لگایا، تہمت یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں، تو اللہ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت سے (دنیا میں)باز آ جائے (رک جائے، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے)"۔

اس ناچیز کو پکا یقین ہے کہ، اگر اس حدیث مبارکہ کو قومی نصاب میں شامل بھی کر لیا جائے تو ہم اپنے کرتوتوں سے باز نہیں آئیں گے۔ آجکل ایک نیا رواج چل نکلا ہے۔ کسی بھی شریف آدمی کی عزت کا جنازہ نکالنا ہو۔ جھوٹی درخواست کے ذریعے گھٹیا الزام لگا کر، اس شخص کے کردار کا قتل عام کر دیں۔ کوئی نہیں پوچھے گا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ راقم کے سامنے حالیہ چند ماہ میں ایسے واقعات رونما ہوئے، جن کو دیکھ کر انسانیت پر سے اعتبار اُٹھ گیا کہ سیاست دان تو اپنی پیٹ کی غلامی میں ماں، بہن، بیٹی، بہو کا تقدس پامال کر چکے۔ یہ تعفن زدہ معاشرہ بھی پیچھے نہیں رہا۔ روز بروز تاریکی کے گڑھے میں گرتا جا رہاہے۔

پہلے واقعہ میں خاکسار کے ایک ڈاکٹر دوست نے بتایا کہ، ان کے اسپتال کے شادی شدہ مرد اور بچوں والی خواتین ڈاکٹرزکے بارے ایک درخواست گزار نے پلیدگی کی حدیں عبور کرتے، ایسی لغو اور اخلاق سے گری زبان لکھی، جسے پڑھنا زندہ درگور ہونے کے مترادف تھا۔

دوسرے واقعہ میں شفیق باپ کی طرح پیش آنے والے ایک سینئر ترین پروفیسر کے خلاف، ایک لیڈی ڈاکٹر نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی درخواست داغنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ شرافت کے پیکر، فرشتہ صفت انسان دوست پروفیسر کا میڈیا ٹرائل کرنے سے بھی گریز نہ کیا گیا، بعد ازاں تمام الزامات جھوٹے ثابت ہونے پر معافی مانگ کر ڈاکٹر صاحبہ چلتی بنی۔

اس طرح کے مزید واقعات سننے کو ملتے ہیں، جن میں باکردار خواتین پر انگلی اٹھانے والے باز نہیں آتے۔ ہم کیسے آزاد ملک کے باسی ہیں؟ جہاں، جس کے جو منہ میں آئے وہ بول دے۔ وقت آ گیا ہے کہ جعلی خبر، جھوٹی درخواست کے ذریعے معصوم لوگوں کے کردار کا قتل عام بند کرنے کے لیئے موثر قانون سازی کی جائے۔ ہر جھوٹے کو بے نقاب کر کے کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔

Check Also

Teen Hath

By Syed Tanzeel Ashfaq