اسمبلی کو اَکھاڑہ نہ بنائیں!
گزشتہ روز سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ پر کرانے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ہنگامہ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے ارکان ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہو گئے، ارکان نے سخت جملوں کے ساتھ ایک دوسرے کو دھکے بھی دئیے اور گالم گلوچ پر اتر آئے۔ قومی اسمبلی ایک مقدس ادارہ ہے اور اس کا کام قانونی سازی ہے، مگر ہمارے ارکانِ اسمبلی نمائندگی کا فریضہ انجام دینے کی بجائے اسمبلی کو اکھاڑہ بنارہے ہیں حالانکہ پہلوانی کے شوق کیلئے ملک میں جگہ جگہ اَکھاڑے موجود ہیں، اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیکر یہ شوق پورا کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک قانون سازی کی بات ہے تو قانون سازی اسمبلی کا اختیار ہے مگر سینٹ کے الیکشن اوپن بیلٹ سے ہوں گے تو پھر جملہ انتخابات کیلئے یہی طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا ورنہ خفیہ رائے شماری کا اصول مجروح ہو گا۔ قانون سازی کرتے وقت جملہ الیکشنز کے اس اہم پہلو کو ضرور سامنے رکھنا ہو گا۔ حکومتوں کو ذاتی ضرورتوں کیلئے نہیں بلکہ قومی ضرورتوں کیلئے آئین سازی کرنا ہو گی۔ یہاں یہ ہوتا آرہا ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس کے مطالبات مختلف ہوتے ہیں اور جب وہ برسر اقتدار آتی ہے تو وہ اصول بدل جاتے ہیں۔ ملک کو پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا ہے اور ہم آدھے ملک سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اب اسمبلی کے منتخب نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ ملک و قوم کی بہتری کا سوچیں۔
پاکستان کے جمہوری مسئلے حل کیوں نہیں ہوتے؟ اسمبلی کو اَکھاڑہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ ہمارے ارکان جگ ہنسائی کا باعث کیوں بنتے ہیں؟ اس پر غور کی ضرورت ہے ہم ماضی میں جا کر اس پر بھی غور کر سکتے ہیں کہ پاکستان دو لخت کیوں ہوا؟ اگر ان تمام باتوں کا کھوج لگایا جائے تو اس کا باعث بھی قومی اسمبلی ہی ٹھہرتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد آئین سازی پر توجہ نہ دی گئی، بانی پاکستان نے کوشش کی مگر ان کی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیا گیا۔ ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 1947ئ میں مرکزی اسمبلی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، پہلی آئین ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 10تا 14اگست 1947ء کو کراچی میں منعقد ہوا، مشرقی پاکستان کے اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے مسٹر جے این منڈر کو قائد اعظم نے اسمبلی کا صدر مقرر کیا، یہ درست فیصلہ تھا کہ مشرقی پاکستان جوکہ مغربی پاکستان سے اکثریت میں تھا سے تعلق رکھنے والے ایک اقلیتی ممبر کو صدر نامزد کیا گیا جس سے بنگالی بھائیوں کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری میں بھی خوشگوار تاثر قائم ہوا۔
آئینی کمیٹی کے سامنے بہت سے مسائل تھے جن میں ملک کے دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل سے زائد کا فاصلہ آئین وفاق طرز کا ہو یا وحدانی، صوبوں کے اختیارات، صوبوں کے درمیان آبادی کامسئلہ، سب سے اہم قومی زبان کا مسئلہ درپیش تھا۔ 7ستمبر 1950ء کو آئینی کمیٹی نے اپنی عبوری رپورٹ پیش کی جس میں اسمبلی کے دو ایوان تجویز کیے گئے، ایوان میں وفاق میں شامل یونٹوں کا نمائندگی دینا تجویز کیا گیا جس پر مشرقی پاکستان نے سخت احتجاج کیا اور کہا کہ اس تجویز سے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہورہی ہے، مشرقی پاکستان میں اردو کو قومی زبان بنانے کے مسئلے پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ مشرقی پاکستان کی قومی زبان بنگالی ہوگی، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ زبان جس کو نہ ہم بول سکتے ہیں، نہ لکھ سکتے ہیں اور نہ پڑھ سکتے ہیں اس کو قومی زبان کے طور پر مسلط کرنا مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے خلاف خوفناک سازش ہے۔ مشرقی پاکستان کے سخت اعتراض اور ہنگامے کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے 21نومبر 1950ء کو یہ رپورٹ داخل دفتر کردی اور آئین سازی کا کام ملتوی ہوگیا۔ 1953ء کو محمدعلی بوگرہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے آئین سازی کا کام پھر سے شروع کیا اور ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کیلئے 300ارکان تجویز کیے گئے۔ 165ء مشرقی 135مغربی پاکستان کے مختلف صوبے۔ مغربی پاکستان کی نشستو ںکی جو تفصیل دی گئی اس میں بہاولپور اور خیر پور کیلئے ریاست کا لفظ استعمال ہوا۔ تفصیل اس طرح ہے کہ پنجاب 75، صوبہ سرحد 13، صوبہ سندھ 19، قبائلی علاقہ 11 ریاست بہاولپور 7، ریاست خیر پور 1، بلوچستان3 اور بلوچستان اسٹیٹ 2۔
قومی زبان کے مسئلے پر چونکہ بہت زیادہ ہنگامہ آرائی ہوچکی تھی اور مشرقی پاکستان میں سخت اشتعال پایا جاتا تھا اسی بناء پر محمدعلی بوگرہ کے آئینی فارمولے میں تجویز کیا گیا کہ بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہونا چاہئے۔ اس موقع پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر آئین کا بنیادی مقصد غیر منصفانہ اور امتیازی قوانین کے مقابلے میں منصفانہ اور مساویانہ قوانین کا اجراء ہوتا ہے، یہ کیا انصاف تھا کہ بنگالیوں کے احتجاج پر ان کی بات کو مانا جارہا تھا اور بنگالی کو قومی زبان کا درجہ تجویز کیا جارہا تھا مگر پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، براہوی، پوٹھوہاری، ہزارہ اور کشمیری کا کیا جرم تھا؟ کیا ان زبانوں کے بولنے والوں کا کوئی حق نہ تھا کہ بنگالی کی طرح ان کی زبان بھی قومی زبان کا درجہ حاصل کرتی؟ جبکہ ہندوستان میں تقسیم کے بعد پہلے دن سے اصول طے کردیا گیا کہ ہندی ہندوستان کی اکلوتی قومی زبان نہ ہوگی بلکہ ہندوستان کی تمام بڑی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہوگا، ہندوستان کے آئین میں آج بھی ہندوستان کی تمام زبانوں کو قومی زبان کو درجہ حاصل ہے، اگر ہمارے ارکان اسمبلی کے پاس اپنی کوئی بصیرت نہیں تو کم از کم دوسرے سے ہی کچھ سیکھ لیا جائے، افسوس کہ پاکستان کو دو لخت کرانے کے باوجود ہمارے حکمرانوں اور ہمارے ارکان اسمبلی کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔
پاکستان کے ڈکٹیٹر ضیاء الحق سندھی قوم پرست رہنماء جی ایم سید کو گلدستے پیش کرتے رہے اور ضیاء الحق کے علاوہ جنرل مشرف بھی ڈھاکہ جاکر بنگالی زبان کے مسئلے پر شہید ہونیوالے شہداء کے مینار پر پھول چڑھاتے رہے مگر پاکستانی زبانوں کو ان کا حق دینا گوارہ نہ کیا، زبان کا وہ مسئلہ قیام پاکستان کے وقت پہلے دن سے شروع ہوا اور آج تک ختم نہیں ہوا، کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ قانون ساز اسمبلی کے ارکان اسمبلی کو اَکھاڑہ بنانے کی بجائے آئین سازی پر توجہ دیں اور قوانین کے ذریعے ان مسائل کو حل کریں جو جمہوریت کے ساتھ ملک کی سالمیت کیلئے آج بھی مسئلہ بنے ہوئے ہیں اگر پہلے دن سے ملک و قوم کی بہتری کیلئے قوانین بن جاتے تو اس طرح کی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ اب بھی وقت ہے کہ قومی ضرورتوں کے تحت آئین سازی کی جائے اور پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو معاشی حقوق کے ساتھ ساتھ تہذیبی، ثقافتی حقوق بھی دیئے جائیں۔