Wusat e Nazar
وسعت نظر
ایک زمانے میں جب کمیونسٹ پارٹی میں ہوا کرتے تھے تو ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی یا ادب برائے مقصد یا ادب برائے نظریہ کی پرانی بحث کبھی پڑھنے کو مل جاتی، کبھی سننے کو تو کبھی اس ضمن میں کچھ کہنے کو۔
نظریہ نظریہ کی تکرار، پیچھے امام کے اللہ اکبر کہنے والوں کی قسم کے احباب ویسے ہی کیا کرتے جیسے طالبان بعد میں شریعت شریعت کی یا ان سے پہلے تبلیغی جماعت والے پورا کا پورا دین کی۔
پھر میں روس چلا گیا جہاں اکتیس برس بتائے اور زیادہ عرصہ ریڈیو صدائے روس کے ساتھ جہاں بیشتر لوگ ادب سیاست سماجیات سے شناسا تھے۔ وہاں نظریہ ناستلجیا بن گیا تھا جو بہت کم لوگوں کی ابتلا کا موجب تھا۔ ابادی کا بیشتر حصہ پیٹ بھرنے یا بعد میں صارفین کے سماج سے ہم آہنگ ہونے میں جتا ہوا تھا۔
دو برس پیشتر پاکستان لوٹ آیا تو تب اکادمی ادبیات کے سربراہ یوسف خشک صاحب نے معاصر روسی افسانوں کے تراجم کی ذمہ داری دے دی، جو میں نے کیے مگر ابھی چھپے نہیں۔ پھر اکادمی کا ہی ادبیات انٹرنیشنل ہے جس کے مدیر بھائی فاروق عادل نے مجھے کچھ لکھنے کو کہا تو میں نے روس میں معاصر ادب سے متعلق ایک مفصل مضمون کا ترجمہ کرکے دیا جس میں عہد حاضر میں روسی ادب کی اصناف، مصنفین اور تخلیقات سبھی کا ذکر تھا۔ میگزین چوں کہ ان لائن ہے چنانچہ دلچسپی رکھنے والے وہاں پڑھ سکتے ہیں۔
پچھلے دنوں نمل میں ہوئے بک فیسٹیول میں سنگت کے سٹال سے میں نے محترم شاہ محمد مری کی ترجمہ کردہ افسانوں کی کتاب منتخب سوویت ادب خرید کی، جو پہلی بار 2006 میں چھپی درج ہے اور دوسری بار 2021 میں۔
مری صاحب کو غالباََ روسی نہیں آتی اور تراجم بھی ترجمہ الترجمہ ہیں یعنی روسی سے انگریزی اور انگریزی سے اردو۔ انگریزوں کا یہ حال کہ تالستوئے کا معروف ناول وائنا ای میر یعنی جںگ و جہان کا ترجمہ وار اینڈ پیس کر دیا گیا تھا جو اردو میں جنگ اور امن بن گیا جبکہ روسی لفظ میر امن اور جہان دونوں معانی دیتا ہے لیکن وائنا ای میر میں امن کہیں ہے ہی نہیں۔
یہ جملہ معترضہ اس لیے کہ مری صاحب جیسے ماہر لسانیات کو یہ تو معلوم ہے کہ ماسوائے انگریزی، جرمن اور سکنڈے نیویائی زبانوں کے یورپ کی کسی زبان میں ٹ یا ڈ نہیں ہے بس ت ہے اور د مگر انہوں نے یارست (طیش) کو یاروسٹ لکھ دیا اور ایسے کئی دوسرے روسی لفظ کیونکہ انگریزی میں ایسے لکھا تھا۔ چلیں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اور نہ ہی بری بات ہے۔
انہوں نے یوری جرمن جو اصل میں یوری گیرمان ہے کے تعارف میں فیلکس دیرژنسکی کو عمدہ انقلابی لکھا۔ اگر یہ انگریزی کا ترجمہ ہے تو دروغ بر اون لیکن اگر مری صاحب نے لکھا تو چیکا کا سربراہ درژنسکی وہ سفاک شخص تھا کہ روس میں پرانی سوچ کے خلاف ہنگاموں کے دوران سمولنی جو پہلے چیکا اور بعد میں کے گے بے یعنی کے جی بی کا ہیڈکوارٹر رہا، کے سامنے نصب اس کے ضخیم مجسمے کو لوگوں نے نفرت میں، رسیاں زنجیریں ڈال کر کرینوں سے کھینچ کے گرایا تھا جب کہ ہجوم نے سٹالن کے کسی مجسمے کو نہیں چھوا تھا اور لینن تو تھا ہی ان کا روسی۔
اس مجموعے میں سبھی افسانے معیاری نہیں ہیں لیکن جو ہیں ان کے آخر میں بس "عمدہ انقلابی" ہی رہ جاتا ہے اور افسانہ فیلکس درژنسکی کے مجسمہ کی طرح دھڑام سے زمیں بوس ہوتا لگتا ہے۔
انسانی الام و مصائب، راحت و مسرت سبھی انقلاب سے عبارت نہیں کہ انقلاب میں ذہن میں ٹھونسے گئے نظریہ کے حامل بے تحاشا عام لوگ ہوتے ہیں یا موقع پرست رہنما کہ وہ کسان کے گھوڑے کی رقم تو وزارت سے دلوا دیتے ہیں ساتھ ہی ہزاروں بے بدل مصوروں، فن کاروں، ادیبوں، شاعروں، حسن پرستوں اور درد دل رکھنے والوں کو قید میں ڈال دیتے ہیں یا مروا دیتے ہیں۔
روس کا حقیقی ادب انقلاب کے بعد کا سرکاری ادب نہیں جو ادب برائے مقصد و نظریہ تھا بلکہ اس سے پہلے کے دستاییوسکی، تالستوئے، پشکن و دیگراں کا تخلیق کردہ ادب تھا یا سوویت یونین کے انہدام کے دس سال بعد کا ادب جب ناستلجیا والے بہت کم رہ گئے تھے۔
منتخب سوویت ادب (افسانوں ) کو سوویت یونین کی تحلیل (1991) کے پندرہ برس بعد ترجمہ کرکے چھاپنا محترم شاہ محمد مری صاحب کا ناستلجیا ہو سکتا ہے یا بلوچستان میں اپنے اپنے مقصد اور نظریہ والے لوگوں کے لیے انگیخت کیونکہ اب ادب دوست تو ایسے افسانوں کی مقصدیت کو تسلیم کرنے سے رہے
میری ایک تو یہ خواہش ہوگی کہ جب میرے ترجمہ کردہ معاصر روسی افسانے سامنے آئیں تو دلچسپی رکھنے والے ان دونوں مجموعوں کو بی یک وقت پڑھیں دوسری درخواست ہوگی کہ شاہ محمد مری صاحب میرے لکھے کا برا نہ منائیں۔