Yaad e Mazi
یادِ ماضی
پندرہ فٹ کی طویل گلی کے قریب وسط میں دائیں طرف وہ پانچ مرلے کا گھر تھا۔ گلی کچی اور کسی قدر گہری تھی۔ گھر کے دو در والے دو ایک جیسے دروازے ۔ غالباً کیکر کی لکڑی کے بنے تھے ،جن پر سبز روغن کیا گیا تھا۔ ایک دروازہ ڈیوڑھی میں کھلتا، جس کے سامنے پانچ سات فٹ اندر کی طرف دبیز پردہ پڑا رہتا تھا۔ اور دوسرا دروازہ بیٹھک میں ۔ جو کہ مہمان خانہ تھا۔
لاہور شہر کے اس وقت کے مضافات کا یہ علاقہ پوری طرح آباد نہیں تھا۔ گرچہ اب وسط شہر ہے۔ یہ بڑے شہروں کی مضافات بھی نا۔ چھوٹے لوگوں کی خواہشات جیسی ہوتی ہیں ۔ کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتیں ۔ مضافات کا جیسا عمومی نقشہ ہوتا ہے۔ کچی گلیاں، چھدرے گھر بالکل ویساہی تھا یہ محلہ۔ ہمارے گھر سے پہلے والا گھر تھوڑا بڑا اورچونکہ ہمارے گھر کے بعد میں بنا، اس لیے تھوڑا جدید طرز تعمیر تھا۔ لوہے کا بڑا سا گیٹ جس پر درمیان میں کچھ نقش ونگار بنے تھے۔ اور اوپری طرف چھوٹی چھوٹی سلاخیں جن پر لوہے کی چھوٹی چھوٹی تکونیں لگی تھیں تاکہ کوئی چوری کی نیت سے ٹاپ نہ سکے۔
ان کے گیٹ کے ساتھ ایک کھڑکی گلی میں کھلتی تھی ،جو ان کے ڈرائنگ روم کی تھی۔ کھڑکی اور گیٹ کے درمیان والی جگہ پر سیمنٹ سے نقش ونگار بناکر، ان میں دیدہ زیب رنگ بھرے گئے تھے۔ کھڑکی کے عین نیچے ایک چھوٹی سی کیاری بنائی گئی تھی جس حد بندی کیلئے ترچھی اینٹیں اس طور زمین میں گاڑی گئیں تھیں کہ زمین سے باہر صرف ایک تکون دکھائی دیتی۔ ان آدھی تکون نما اینٹوں پر سفید چونا پھیرا گیا ہوتا۔ کیاری میں گہرے سبز چوڑے چمکدار پتوں والے موتیے کے بڑے بڑے پودے جن پر لگے ڈھیروں پھولوں کی خوشبو ہمارے آنگن میں بھی روشن صبح کا پیغام لیکر آتی۔
ہمارے گھر کی ڈیوڑھی کی اختتام پر بڑا سا صحن جس پر سرمئی سیمنٹ کا پلستر کیا تھا۔ صحن کے سامنے برآمدہ جس کے دونوں اطراف میں گول محرابیں اور دو دو چوکور ستون بنے ہوئے۔ انہیں ستونوں پر ایک شیڈ باہر کی طرف بنا تھا۔ جس پر ماں جی مجھ سے بستہ چھین کر رکھتی تھیں تاکہ میں کچھ دیر پڑھائی میں وقفہ لوں ۔
صحن کے بائیں طرف باورچی خانہ اور اس کے ساتھ سیڑھیاں جو تھوڑا سا سیدھا جا کر دائیں طرف مڑتی ہوئی چھت پر جاتیں ۔ ان سیڑھیوں کے نیچے برآمدہ میں بائیں طرف چھوٹا سا سٹور جس کی چھت قریب آٹھ فٹ اونچی تھی اور اس کے اوپرایک چار فٹ اونچائی کی گیلری جس میں گھر کی ساری بیکار اشیاء بے ترتیب پڑی رہتیں ۔ برآمدہ کے پیچھے ایک بڑا کمرہ اور بائیں جانب چھوٹا کمرہ۔ بڑے کمرے میں ایک پلنگ اور دوکرسیاں ۔ پیچھے کی طرف سیمنٹ کی بنی ایک الماری سی۔ جس کے اوپر چابی والا کلاک جسے جمعہ کے جمعہ چابی بھری جاتی۔
باورچی خانے دروازے کے سامنے دیوار کے ساتھ ایک دیو دار کا بنا چھوتا سا میز رکھا ہوتا۔ دائیں طرف سیڑھیوں کے نیچے مٹی کے تیل کا چولہا اور ساتھ ہی ایک لکڑی کی جالی دار الماری جس کا دروازہ اوپری طرف تھا اور اوپر کو اٹھا کر ہی کھلتا تھا۔ اس میں بہت سے پیاز اور لہسن رکھے ہوتے۔ دروازہ کے سامنے پیڑھی پر بیٹھ کر ماں جی صبح پراٹھے بنایا کرتیں ۔ جنہیں ہم چائے سے بھری پورسلین کی موٹے کناروں والی پیالیوں میں جس کے باہر مختلف رنگوں کے پھول بوٹے بنے ہوتے، میں ڈبو ڈبو کر کھایا کرتے۔ ماں کے ہاتھ کے کڑک پراٹھے اور پیالوں میں رکھی میٹھی گرم چائے اس وقت جو مزا دیتی ساری کائنات کے مزے اس کے سامنے ہیچ ہیں ۔
کبھی سوچتا ہوں زندگی کا چرخ کیسی بے رحم گردش کرتا ہے چکی کے پاٹ کی طرح۔ اپنے پیاروں کو، سنہرے لمحوں، حسین احساسات کو باریک پیس کر یادوں آہوں اورپچھتاوں میں بدل دیتا ہے۔ الہی میرے ماں باپ پر ایسا ہی رحم۔ کرنا جیسا وہ مجھ پر بچپن میں کیا کرتے تھے۔