To Chalein Turkey
تو چلیں ترکی؟
نہیں معلوم بچپن میں پڑھائی گئی تدریسی کتب میں ترکوں اور برصغیر والوں کے بندھن اور قریبی تعلقات کے قصص کا کمال تھا یا تحریک خلافت کا تذکرہ کا اثر تھا، سلطنت عثمانیہ کے شکوہِ کہنہ کی کشش تھی یا ترکی ڈراموں کے کرداروں کے حسن کا فسوں، ہمیں ترکی دیکھنے کا شوق باقی سب ملکوں سے زیادہ تھا۔
بیشتر پاکستانی ترکی کی سیاحت کے لیے جاتے ہوئے ترکی اور ترکوں کے عشق میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ واپسی پر ترکنوں کے، ہماری سیاحت میں مگر ترکی اور ترکوں سے عشق کے علاوہ ان کی انگریزی کا برابر کا دخل تھا۔ ہمیں اپنے کام کے سلسلے میں ایک کیمیائی مرکب کی ضرورت تھی۔ تلاش بسیار کے بعد تین ممالک میں ان کی دستیابی کا علم ہوا۔ بھارت، ایران اور ترکی۔ بھارت شاید ہمارا آخری چناؤ بھی نہ ہوتا، ایران پر پابندیاں تھیں، اب تک ہیں۔ آخری امید تھی ترکی۔
کمپنی کو برقی مراسلہ بھیجا۔ یاد دہانی کا مراسلہ ارسال کیا گیا، جواب ندارد۔ دیے گئے نمبر پر فون کیا۔ کسی نے ترک زبان میں مترنم خبر گیری کی، ہم زبان افرنگ میں مدعا پیش کرتے رہے، بات ہیلو سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ویب سائٹ سے اندازہ ہوا کہ کمپنی بہت بڑی ہے زبردست پلانٹ ہے کئی ممالک کو مال برآمد کرتے ہیں۔ ہم نے پھر سے کوشش کی پھر نتیجہ وہی۔ آخر مایوس ہو رہے۔
کمپنی مذکورہ اور ان کی انگریزی سے نا آشنائی پر تین چار حرف بھیجے ابھی پانچ چھ ماہ ہی گذرے تھے کہ ایک کاروباری وفد کی شنید ہوئی کہ ترکی جا رہا ہے۔ استنبول میں گاڑیوں کے پرزہ جات کی سالانہ عالمی نمائش تھی جس کے لیے ہمیں بھی دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ ہمارے من میں ترک اور ترکوں کی سوئی محبت نے اور جواب نہ ملنے کی کلفت نے ہموزن جوش مارا۔
فوراً پاسپورٹ اور مطلوبہ کاغذات مہیا کیے اور اذن سفر مطلب ویزا کے دھیمے میٹھے انتظار میں شاداں و فرحاں ہو رہے۔ واپسی پر گھر جانے سے قبل ماں جی کی خدمت میں حاضری کا ارادہ تھا۔ اللہ کریم اپنی رحمتوں کے حصار میں رکھیں، ماں جی ابھی حیات تھیں۔ وحدت روڈ سے پائلٹ سکول والی سڑک پر مڑے۔ سڑک کے آغاز میں دو طرفہ ٹریفک ہے کچھ دور جا کر سڑک کے درمیان چھوٹی سی کنکریٹ کی بنی ہوئی دیوار ہے جو اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔
ٹھیک سے یاد نہیں کہ ترکی دیکھنے کا نشہ تھا یا ماں جی سے ملاقات کا سرور ہمارا دھیان کنکریٹ کی دیوار کی طرف بالکل بھی نہیں گیا۔ گاڑی عین وسط میں اس پر چڑھی تھی اور اپنی رفتار کے زور پر گھسٹتی کافی دور تک چلی گئی تھی۔ چاروں ٹائروں کا زمینی رابطہ منقطع ہونے کے باعث بریک لگانا یا ریورس کرنا ممکن نہیں رہا تھا سو جب تک مومنٹم ختم ہوا گاڑی سڑک کے وسط میں لگے کھمبے سے دو ملی میٹر کے فاصلے پر تھی۔
سڑک پر موجود دکانوں میں سے نصف درجن نوجوان گاڑی کی طرف بالکل ایسے لپکے جیسے فارمولا ریسوں میں ٹائر تبدیل کرنے والا عملہ لپکتا ہے۔ آن کی آن میں انہوں نے گاڑی مابدولت سمیت اٹھا کر واپس سڑک پر رکھ دی۔ ہم گاڑی سے نکل کر حالات کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ ان میں سے ایک جوان ہمارے قریب آ کر پوچھنے لگا۔ "پائن بنی بالکل نظر نہیں آئی سی"؟ (بھائی جان آپ کو دیوار بالکل بھی نظر نہیں آئی)۔
ہم نے سوچا اس ذہین آدمی سے کہیں کہ نہیں بنی تو خوب نظر آئی تھی مگر ہم نے بچپن میں ہی کہیں منت مان لی تھی کہ جس روز ہمارے ترکی کے ویزہ کے لیے کاغذات جمع ہوں گے ہم گاڑی اس مقدس بنی پر ضرور چڑھائیں گے، مگر منہ سے کچھ نہیں بولے بس مسکرا کر رہ گئے۔ اتنے میں اس کا ایک ساتھی بولا پائن اینو رہن دیو اے ہر اک کولوں ایہ ہی پچھدا اے۔ (بھائی جان اس کو چھوڑیں یہ سب سے یہی پوچھتا رہتا ہے)۔
ہر ایک مطلب۔ ہم نے حیرت سے پوچھا۔ بولا سر یہاں ہر روز دس بیس گاڑیاں اس دیوار پر چڑھتی ہیں۔ حیرت ناک۔ دھانسو قسم کے سفر کا کیا ہی دھماکہ خیز آغاز ہوا تھا۔ جاری ہے