Pariye Gar Beemar
پڑیے گر بیمار
گھر کا بڑا کمرہ تقریبا جنرل وارڈ کا منظر پیش کررہا تھا۔ ڈینگی مچھروں نے چند گھنٹوں کے وقفہ سے ہمیں، ملکہ عالیہ اور ولی عہد کو شرف نوش لہو بخشا تھا۔ ہم قطار اندر قطار یوں بے سدھ پڑے تھے جیسے ماہر شکاری شکار کی گئی مرغابیوں کو کیچڑ سے نکال کر جھیل کنارے ترتیب سے لٹاتا ہے۔
حیرت اس بات پر تھی کہ جوانوں کے گرم پرجوش لہو سے تو یقینا بہن مچھری خوب مزے سے سیر شکم ہوتی ہوگی مگر ہم بزرگوں کے ٹھنڈے میٹھے خون کو شاید سویٹ ڈش کے طور پر لیتی ہوگی۔ ویسے کیا ہی اچھا ہو اگر ہماری طرف سے چوہدری شجاعت حسین اور مفتی منیب صاحب پر مبنی وفد مچھروں کے عمائدین کو مذاکرات کرکے انہیں ہم انسانوں کی جگہ ساشے پیک لہو پینے پر آمادہ کرلیں۔
ہم چین یا کوریا سے انسانی جلد سے مشابہ کسی پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ساشے بنوالیں گے جن میں برائلر مرغیوں کا خون بھرا ہو۔ اور کیا معلوم یہی ساشے سرکار کو بھی بھا جائیں اور وہ بھی عوام کا خون چوسنے کی بجائے ان پر لگ جائے۔
بہرحال روز اول تپ سہ ہندسہ و بالا بھگتنے کے بعد کچھ اوسان بحال ہوئے توچند دوست معالجین کی بنائی ویڈیوز سے اس افتاد ناخواستہ و غیر مطلوب سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جانا کہ ڈینگی کی پانچ اقسام اور ہر کے علیحدہ علیحدہ اثرات طبع انسانی پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے سامنے کررہے تھے۔ تینوں مریضوں کی بڑبڑاہٹ مختلف تھی۔ ملکہ عالیہ وقفہ وقفہ سے ہائے۔۔ ہائے۔۔ کررہی تھیں۔۔۔۔۔ جب کہ فرزند ارجمند ایک تواتر سے آہو۔۔۔ آہو۔۔۔ ہمارے جوف دہن سے البتہ باوجود ہزار کوشش کبھی خفی اور کبھی جہری آہ۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اسی طرح تینوں کو مختلف نوع کے ڈراؤنے سپنے آتے تھے۔ بخار البتہ سب کو ایک سا ہی ہوتا تھا آتشی گلابی رنگ کا۔۔ گرمی والا۔
جب یقین ہوگیا کہ جملہ وائرل بیماریوں کی طرح اس مرض کا بھی کوئی علاج نہیں سوائے اس کے کہ پیناڈال سے بخار قابو میں رکھا جائے اور کثرت آبنوشی سے ڈی ہائیڈریشن سے بچا جائے۔ تو کوشش کی کہ صبروضبط سے پڑے رہیں مگر جسم میں درد اتنا تھا کہ جتنا حضرت اقبال کے دل میں قوم کا درد۔ پٹھوں میں طاقت بالکل ختم ہوئی تھی۔ پوری قوت سے مٹھی بھینچنے پر بھی بس چمچ پر اتنی سی گرفت آتی جتنی تبدیلی سرکار کی موجودہ حالات پر ہے۔
احبابِ کثیر جو عیادت کے لیے تشریف لاتے۔ بہ اہتمام سیب، مسمی اور میٹھے ضرور لاتے۔ شاید ان دنوں حاکم وقت نے کسی دفعہ قریب کے تحت ایسا کرنے کا عبوری حکم جاری کررکھا تھا۔ گھر کا وہ حصہ جہاں پھل رکھے جاتے ہیں باقاعدہ پھلوں کی دکان بن چکا تھا۔ مبخور پڑے کبھی ہم سوچتے کہ ان پھلوں کی آنلائن فروخت شروع کرلیں کہ فارغ رہنا ہمارے لیے سوہان قلب ہوتا ہے۔
سارے گھرانے، گھریلو ملازمین اور مہمانوں کے پوری استعداد سے پھل کھانے کے باوجود بعد از بحالی صحت ہفتہ عشرہ یہ ڈھیر یونہی رہا۔ بس آہستہ ان ہیئت ظاہری میں کچھ ردوبدل وقوع پذیر ضرور ہونا شروع ہوا۔ اور وہ یہ کہ ان کی جلد جو کسی عارض گلنار سے مشابہ تھی، کسی پیر فرتوت کے جھریوں زدہ ہاتھوں کہ مانند ہوگئی تھی۔ نیز بہت حد تک تفریق من وتو بھی معدوم ہوگئی۔ کہ ایک روز ہم نے مسمی کی اشتہا میں میٹھا چھیل لیا۔ کہ جھریاں زدہ مسمی اور میٹھے میں تمیز کرنا بالکل ایسا ہی کار دشوار ہے جیسا کسی ذہین خاتون کے لیے میچنگ جوتا تلاش کرنا۔ اور جب ہم نے اس میٹھے کی کاش کو کھانے کہ کوشش تو ہماری بالکل وہی کیفیت تھی۔۔ جو سانپ کی چھپکلی نگلتے وقت ہوتی ہے۔
ڈینگی بہت "پرتاثیر" بیماری ہے اسے گئے ایک ماہ ہونے کو ہے مگر کسی بچھڑے محبوب کہ کسک طرح رہ رہ کر اپنی یاد کرواتا ہے۔ کبھی کھڑے کھڑے آنکھوں کے سامنے تارے محو رقص، تو کبھی بیٹھے بیٹھے لگتا ہے جیا رفت۔ کبھی دل گھبرائے تو کبھی آنکھ پھڑپھڑائے۔ معالج سے شکوہ کیا تو سارے ٹسٹ کروانے کے بعد کہتے تم اب بالکل ٹھیک ہو یہ ڈینگی کی باقیات نہیں مہنگائی کے اثرات ہیں۔ لگتا ہے ٹھیک ہی کہتے ہیں کیونکہ ایسا کہتے ہوئے انہیں خود بھی چکر آرہے تھے۔