Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Pachas Hazar Ka Note

Pachas Hazar Ka Note

پچاس ہزار کا نوٹ

آٹھویں تک ہمارا ایک ہم جماعت ہوتا تھا، نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن ہم سب اسے بغلول کہا کرتے تھے۔ اور یہ نام اس نے کڑی محنت سے کمایا تھا۔ چھٹی سے ہمارے ساتھ تھا بلکہ ہمیشہ ہمارا ہم نشین، ہم پیالہ اور ہم پلیٹ رہا۔ چھٹی جماعت میں ہمارا سلسلہ تدریس سکول کے وسیع صحن کے ایک طرف موجود ایک گھنے بکاؤلی کے درخت کے سایہ تلے ہوتا تھا۔ وہاں ہم اینٹوں پر بیٹھ کر تحصیل علم کیا کرتے تھے۔ بغلول ہمارے دائیں یا بائیں والی اینٹ پر محو تدریس رہتا۔

ساتویں میں ہمیں ایک بنا چھت کے کمرہ مل گیا جس میں ٹاٹ پر بیٹھ کر ہم علم کی پیاس بجھاتے وہاں بغلول ہمارا ہم ٹاٹ نشین ہو گیا۔ آٹھویں میں ہمیں آخر کار چھت اور بنچوں والا کمرہ ملا جس میں پنکھے بھی لگے ہوئے تھے۔ تب وہ ہمارا ہم بنچ ہو گیا۔ اس کی ہم نشینی نہ ہمارے لیے باعث طمانیت تھی کہ ہمیں اس سے بہت لگاؤ رہا ہو اور نہ اس کا ہی انتخاب تھا، بلکہ یہ ہمارے اساتذہ کی منصوبہ بندی بلکہ سازش تھی کہ ایک قابل بچے کے ساتھ ایک غیر قابل بٹھایا جاتا، تاکہ اس میں پڑھائی کی آرزو پیدا ہو۔

اور اساتذہ اس سازش میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے کہ اس میں تو پڑھائی کی آرزو کیا جگنی تھی ہمیں آوارگی کی کسی قدر لت لگ گئی۔ شاید قدرت بھی ایسی منصوبہ بندی کرتی ہے تبھی تو "کابل" کے ساتھ والا دارالخلافہ ہمارا ہے۔ مگر ہم بھی بغلول رہنے پر مصر ہیں۔ خیر ہمارے والے بغلول کی دو باتیں بہت مشہور تھیں۔ ایک تو وہ پڑھائی میں بہت کمزور تھا اور دوسرا اس کی نظر غضب کی تیز تھی۔

سڑک پر چلتے آدھا میل کے دائرے میں پڑی کوئی بھی چیز اس کی عقابی نظروں سے بچ نہیں سکتی تھی۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر سڑکوں سے کیل، نٹ، قابلے اور بوتلوں کے ڈھکن وغیرہ اٹھا کر اپنے بستے کی ایک مختص جیب میں رکھا کرتا تھا۔ اسی امر عقابی کے دوران اسے ہر دوسرے، تیسرے دن دس پیسے اور پچیس پیسے کے سکے بھی ملا کرتے تھے۔ جنہیں وہ فخر سے ہمیں دکھا دکھا کر خرچ کرتا تھا۔

اسی دوران سرکار نے پانچ سو کا کرنسی نوٹ جاری کیا۔ بغلول نے کہیں سے سن دیکھ لیا۔ اب اس کی زندگی کا سب سے بڑا ہدف یہ تھا کہ اسے کسی کا پانچ سو کا نوٹ گرا مل جائے کہ باقی زندگی چین سے بسر ہو جائے گی۔ اس دور میں پانچ سو کی قدر واقعی ایسی تھی اٹھارہ گریڈ کے افسر کی تنخواہ تھی۔ بلکہ اس کا روزگار کا ہدف ہی یہ تھا کہ سکول سے فارغ التحصیل علم کے بعد وہ سڑکوں پر لوگوں کی گمشدہ اشیاء تلاش کر کے گزر بسر کر لیا کرے گا۔

بیچارہ اسی تگ و دو میں آٹھویں کا امتحان پاس نہ کر سکا، نہ جانے اب کہاں ہو گا پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ مگر ہمیں وہ یاد بہت آیا اس دن جب سرکار نے پانچ ہزار کے نوٹ کا اجراء کیا۔ ہم نے چشم تصور میں اس کی آنکھوں میں چمک اور اس کے چہرے پر عزم کی وہ لالی دیکھی جو کبھی ہمارے راہنماؤں کے چہرے پر بھی نظر نہیں آئی۔ شروع شروع میں جب پانچ ہزار کا نوٹ آیا تو واقعی میں کوئی بڑی ہی چیز تھی۔

ملازم پیشہ لوگ باقاعدہ جمع ہو کر کسی دودھ، دہی والے یا آلو، چنے بیچنے والے کے پاس جا کر اس کی زیارت کیا کرتے تھے۔ پانچ ہزار کا کھلا حاصل کرنا بجائے خود ایک مہم ہوتی۔ کسی چھوٹے موٹے دکاندار کو تو پانچ ہزار کا نوٹ دیتے باقاعدہ جھجھک محسوس ہوتی۔ اکثر دکانوں پر باقاعدہ لکھا ہوتا "پانچ ہزار کے نوٹ والے پہلے مطلع کریں"۔

ہمیں یاد پڑتا کہ ایک روز ہماری کئی حسرتیں صرف اس لیے نا تمام رہ گئیں کہ ہمارے پاس صرف پانچ ہزار کا نوٹ تھا۔ گلی میں ایک بہت پیارا بچہ کھیل رہا تھا، جی میں آئی کہ اسے چاکلیٹ دلاتے ہیں۔ دکاندار نے کہا ہوش کرو بھائی صبح صبح پانچ ہزار کا نوٹ لیکر آ گئے ہو۔ چوک میں مانگنے والے نے صدا لگائی۔ اللہ کے نام پر بابا۔ ہم نے نوٹ نکال کر دیا پچاس رکھ لو۔ بولا دو گھنٹے بعد آتے تو کھلا دے دیتا ابھی تو بونی بھی نہیں کی۔

پیزا والے نے پیزا بنایا پیک کیا۔ اسے نوٹ دیا لال پیلا ہوا زیر لب بڑبڑایا، پیزا اٹھا کر ایک طرف کر دیا اور نوٹ واپس کرتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑنے لگا۔ اور تو اور بنک سے کھلا لینے جاتے تو ملازم نوٹ کو اور ہمیں ایسے دیکھتا جیسے ملکہ برطانیہ کا ہاتھی دانت سے بنا پاندان ہم نے چرایا ہو۔ وہ تو شکر ہے کہ سرکار نے عوام کی مشکلات دیکھتے ہوئے روپے کی اس قدر بے توقیری کر دی ہے کہ اب تو بچے کو جیب خرچ کے لیے پانچ ہزار کا نوٹ دو وہ منہ بنانے لگتا ہے کہ صرف ایک؟

تیس کے بوٹ پالش کروائیں پانچ ہزار کا نوٹ دیں کوئی شکوہ نہیں۔ حتیٰ کہ اب تو فقیر کو پانچ ہزار دیدیں وہ بھی صرف دو دعائیں فالتو دیتا ہے۔ ہمیں تو بیچارے بغلول پر ترس آتا ہے۔ کاش سرکار اس کے لیے اب پچاس ہزار کے نوٹ کا اجراء کر دے۔ آخر ایک بغلول کے روزگار اور کئی بغلولوں کی نا جائز دولت کی سانبھ کا معاملہ ہے۔

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra