Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Diatom

Diatom

ڈائی ایٹم

سلیکان، آکسیجن کے بعد زمین پرسب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر ہے۔ سطح زمین پر موجود نوے فیصد مٹی سیلیکان سے بنے مرکبات سیلیکٹس پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس میں سب زیادہ ہائیدریٹڈ ایلومینیو سیلیکٹ یعنی عام مٹی ہے۔ اس کے علاوہ سیلیکانڈائی آکسائیڈ SiO2 کی شکل میں بھی پایا جاتا ہے، جو کہ سیلیکا سینڈ۔ Silica sand کہلاتی ہے۔ سیلیکا سے چینی کے برتنوں سے لیکر موبائل فون کے پرزوں تک بہت سی انتہائی مفید اور قیمتی اشیاء بنتی ہیں۔

پوری دنیا میں جہاں بھی بارشیں ہوتی ہیں یا برف پگھلنے سے پانی بنتا ہے، وہ زیادہ تر انہیں سلیکیٹس پر مشتمل مٹی یا پتھروں پر سے ہوتا ہوا دریاؤں میں پہنچتا ہے جو بالآخر سمند میں جا گرتا ہے۔ سیلیکانڈائی آکسائیڈ یا سیلیکا پانی میں حل پذیر نہیں۔ مگر پھر بھی اس کی بہت معمولی مقدار پانی میں حل ہوکر ایک کمزور سا تیزاب مونو سیلیسک ایسڈ یا سیلیسک ایسڈ بناتی ہے۔ یہ تیزاب بھی ندی نالوں کے پانی کے ساتھ سفر کرتا ہوا سمندر میں شامل ہوتا رہتا ہے۔

دوسری طرف بارشوں اور برف پگھلنے سے بننے والا پانی ایسے پہاڑوں اور علاقوں سے بھی گذرتا ہے، جہاں چونے کے پتھر، ڈولومائٹ یا دیگر اساس پر مشتمل چٹانیں ہوتی ہیں۔ یہ اساس سیلیسک ایسڈ کے ساتھ تعامل کرکے کیلشیم، میگنیشیم سیلیکٹ وغیرہ بنالیتے ہیں۔ یوں دریاؤں میں سیلیسک ایسڈ کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ گویا کہ یہ اساس نسبتاً زیادہ مقدار میں حل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر چونکہ یہ کم علاقوں میں موجود ہوتے ہیں، لہذا ان کی مجموعی مقدار سیلیسک ایسڈ سے کم ہوتی ہے۔ اس طرح سیلیکا کی انتہائی کم حل پذیری کے باوجود دنیا بھر سے سالانہ چھ سے آٹھ ارب کلو گرام یا ساٹھ سے اسی لاکھ ٹن سیلیکا سیلیسک ایسڈ کی شکل میں سالانہ سمندروں میں شامل ہوجاتی ہے۔

دوسری طرف اس سے کئی گنا زیادہ یعنی تقریباً دوکروڑ بیس لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ روزانہ کے حساب سے سمندروں میں حل ہوجاتی ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ تر گاڑیوں کے دھوئیں، بجلی بنانے والے کارخانوں اوردیگر کارخانوں جہاں کوئلہ، فرنس آئل یا قدرتی گیس بطور ایندھن جلائی جاتی ہے، میں پیدا ہوتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی پانی میں حل ہوکر ایک کمزور تیزاب کاربانک ایسڈ پیدا کرتی ہے۔

اب سوچیں کہ کس قدر بڑی مقدار میں یہ دو تیزاب سمندروں میں جمع ہورہے ہیں۔ اب سمندر کی اگر بات کریں تو اس کی اوسط پی ایچ 8.1 ہوتی ہے۔ گویا یہ نیوٹرل سات پی ایچ کے مقابلے میں تھوڑا سا اساسی ہوتا ہے۔ یہ اساسی پی ایچ سمند میں موجود خوردبینی حیات بطور خاص اور غیر خوردبینی حیات کے لیے بطور عام۔ بہت ضروری ہے۔ فی الحقیقت پچھلے سو سوا سو سال میں سمندر کا پی ایچ 8.2 سے کم ہوکر 8.1 ہوا ہے۔

سائنسدانوں کا ایسا ماننا ہے کہ اگریہ پی ایچ مزید کچھ درجہ کم ہوجائے تو تمام سیپ، گھونگھے، کورل اور دوسرے جاندار جن کے شیل جوکہ کیلشیم کاربونیٹ سے بنے ہوتے ہیں، گھل جائیں گے اور وہ نابود ہوجائیں گے۔ اسی طرح خوردبینی حیات کے جس کے دم سے سارے سمندر کا نظام حیات چل رہا ہے، بھی معدوم ہوجائیں گے۔ گویا کسی نہ کسی طور اس کرہ ارض پر تمام حیات کی بقا کو خطرہ بن جائے گا۔

اب بائیس ملین ٹن روزانہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آٹھ ملین ٹن سیلیکا سالانہ سے بننے والے تیزابوں سے فطرت کیسے نمٹتی ہے اور ان کا کیا حل کرتی ہے، یہ ایک حیرت انگیز امر ہے۔ ڈائی ایٹم ایک خلوی خوردبینی جانداروں کی ایک قسم ہے۔ یہ بنیادی طور پر الجی ہے۔ جو پودوں کی طرح سورج کی روشنی سے اپنی خوراک بناتے ہیں۔ ڈائی ایٹم ایسے ایک خلیہ پر مشتمل جاندار ہیں، جن کی خلیہ کی دیوار سیلیکا سے بنی ہوتی ہے۔ اور خلیہ کے اندر زیادہ تر کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں۔

ڈائی ایٹم سمندروں میں اس قدر زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں کہ ساری سمندری حیات کے وزن کا پانچواں حصہ بنتے ہیں۔ سمندر میں حل شدہ سیلیکا سے ان کے خلیہ کا باہری حصہ تشکیل پاتا ہے۔ جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی اور تھوڑی سی نائٹروجن سے ان کا باقی جسم بنتا ہے۔ یوں یہ بیک وقت سیلیکا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خرچ کرتے ہوئے بلاواسطہ سمندر کو اوربالواسطہ ہماری زمین کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک کرتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق کل سمندری حیات کا پانچواں حصہ بلحاظ وزن یہی مخلوق ہوتی ہے۔ یہ کائنات کی کل کاربن ڈائی آکسائیڈ کا چوتھا حصہ استعمال کرجاتے ہیں۔ اور روئے زمین کی بیس سے پچیس فیصد آکسیجن یہ پیدا کرتے ہیں۔ ان کی کل حیات چھ دن پر مشتمل ہوتی ہے اور اگر حالت سازگار ہوں اور مناسب خوراک مہیا ہو تو چوبیس گھنٹوں میں ان کی مقدار دوگنا ہوجاتی ہے۔ چھ دن بعد جب یہ مرتے ہیں تو سمندر کی تہہ کی طرف سفر کرتے ہیں۔

اپنے حجم کے لحاظ سے کئی دن سے لیکر کئی سال میں یہ تہہ تک پہنچتے ہیں۔ یوں انسان اور سمندری حیات کے لیے غیر مفید سیلیکا اور کاربن کو، ساتھ لیکر سمندر کی تہہ میں دفن ہوتے رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ان کی تہوں میں موجود کاربن مائع تیل یا قدرتی گیس کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ جو بسا اوقات بہت سے علاقے سے ایک مناسب جگہ پر جمع ہوجاتے ہیں۔ باقی جگہوں پر سیلیکا کے ذخائر رہ جاتے ہیں۔ ان کو ڈائی اٹومیشیس diatomaceous earth کہتے ہیں۔

یہ ڈائی اٹومیشیس ارتھ قدرتی طور پر پائی جانے والی سب سے باریک ذرات پرمشتمل شے ہوتی ہے، جس کے بہت سے استعمالات ہیں۔ اس کا سب سے مزے کا استعمال یہ ہے کہ اسے پکوڑوں اور بیکری اشیاء میں جیسے بسکٹوں کو خستہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک بڑی کمپنی کی طرف سے پکوڑا مکس کے نام سے فروخت کی جانے والی مصنوعہ میں یہ شامل ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ جلد کی بہتر نشوونما کےلیے مختلف ادویہ اور فوڈ سپلیمنٹ کا حصہ بھی ہوتی ہے۔

ایسے بہت سے علاقے جہاں کبھی سمندر ہوا کرتے تھے اور اب خشکی کا حصہ ہیں وہاں سے ڈائی آٹومیسیش ارتھ نکالی جاتی ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں بھی اس کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ خوراک اور ادویات کے علاوہ پانی کے فلٹر بنانے، رنگ سازی ربر اور دیگر کیمیائی مرکبات کی تیاری میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ گویا فطرت نے ایک خوردبینی جاندار کی صورت میں ہمیں نہ صرف کئی اہم مسائل کا حل دیا بلکہ تیل، گیس اور ڈائی آٹومیسیش ارتھ جیسی کارآمد شے بھی مہیا کی۔

سو فطرت کے پاس ہمارے ہر مسئلے کا حل ہمارے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ شاید انسان کے تخیل میں کوئی ایسی بات آہی نہیں سکتی کہ جس کا مظہر فطرت پیش کرنے سے قاصر ہو۔ بلکہ اُلٹا فطرت نت نئی اشیاء اور عوامل واومر سے ہمیں حیران اور بعض اوقات خوفزدہ کرتی رہتی ہے۔ جس کی تازہ مثال کووڈ ہے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari