Bheron Ki Maeeshat
بھیڑوں کی معیشت
" پس اپنے رب کیلئے نماز پڑھ اور قربانی کر"
اللہ کریم اپنے حبیب آقائے دوجہاں سے مخاطب ہیں ۔ اور آقا کریم نے ہمیں سکھایا کہ قربانی کیسے اور کب کرنا ہے۔ لیکن ہم نے اسے کتنا سمجھا اور اس پر کس طرح عمل پیرا ہیں یہ جاننے کے لیے صرف اتنا ہی دیکھ لینا کافی ہے۔ کہ حج پر پچاس لاکھ حاجیوں کو اپنا فرض ادا کرنے کیلئے بھیڑیں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے منگوانا پڑتی ہیں ۔ تصور کریں کہ اگر کسی سال وہ ہمیں بھیڑیں فراہم کرنے سے معذرت کرلیں یا ان میں کوئی وبا پھوٹ پڑے تو عین ممکن ہے کہ ہمارے لیے عالم اسلام سے اس اہم منسک حج کے لیے جانور ہی مہیا نہ ہوپائیں ۔
آپ کو کیا لگتا ہے کہ قربانی کا حکم ہمیں دیا گیا ہے اور قربانی کے جانور پالنے کا کسی اور کو۔؟ میرے خیال میں تو رب کریم جب ہمیں قربانی کا حکم دے رہے ہیں تو درپردہ ہمیں جانوروں کی پیدائش پرورش سے لیکر ان کے زیر استعمال اور ان سے ممکنہ طور پر پر بننے والی تمام اشیاء پر غوروخوض کا حکم دے رہے ہیں ۔
صرف بھیڑوں اور بکریوں ہی کی اگر ہم بات کریں تو آسٹریلیا صرف بھیڑوں سے حاصل کردہ اون کی فروخت سے سالانہ چار ارب ڈالر زرمبادلہ کماتا ہے۔ اور صرف سکھر یا لاڑکانہ یا شیخوپورہ جتنی آبادی والا ملک نیوزی لینڈ سالانہ لگ بھگ ایک ارب ڈالر کی اون فروخت کرتا ہے۔ چونکہ سارا علم اللہ کریم کی ملکیت ہے اور وہ بلاتخصیص مذہب، جستجو اور محنت کرنے والوں کو خواہش بھر علم عطا فرماتے رہتے ہیں ۔
سو اللہ کریم کے عطاء کردہ علم کو اون حاصل کرنے کے لیے، وہ لوگ اس سطح پر لے گئے ہیں کہ پچاس لاکھ کی آبادی والے نیوزی لینڈ میں قریب پانچ کروڑ بھیڑیں موجود ہیں ۔ ان کی بھیڑوں کی اون باریک اور ریشہ لمبا ہوتا ہے۔ اوسطاً سالانہ ایک بھیڑ سے ساڑھے چار کلوگرام اون حاصل کرتے ہوئے سالانہ دولاکھ بیس ہزار ٹن اون پیدا کرتے ہیں ۔
علم وجستجو کی یہ داستان صرف یہیں تک ہی محدود نہیں بلکہ انہوں نے بیس کے قریب مختلف قدرتی شیڈز بھی پیدا کرلیے ہیں تاکہ اون کو کیمیائی مرکبات کی مدد سے رنگنا نہ پڑے۔ اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کے قدرتی رنگوں والی اون عام اون کی نسبت زیادہ مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ اون کو جب پہلی بار گرم پانی سے دھویا جاتا ہے تو اس میں سے گریس نما ایک مادہ نکلتا ہے جسے وول گریس یا کروڈ لینولین کہتے ہیں ۔ اس کو مصفا کرکے جلد کی حفاظت کرنے والا سب سے محفوظ مرکب لینولین حاصل کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر لگ بھگ پینتیس ہزار ٹن سالانہ کا کروڈ لینولین کا کاروبار ہوتا ہے۔ جس کی مالیت بائیس ارب روپے بنتی ہے۔ اسی وول گریس میں سے اور بھی بہت سے کارآمد کیمیائی مرکبات بطور خاص مہنگے ترین انجن آئل میں ملائے جانے والی گریس بھی تیار ہوتی ہے۔
دوسری طرف جب قربانی کریں گے تو کھالیں بھی ملیں گی۔ جن سے چمڑا اور چمڑے کی مصنوعات بنائی جاتی ہیں ۔ قربا نی کا حکم ہمیں، جانور ہمارے قربانی ہماری، کھالوں سے چمڑا بنانے والے پاکستانی۔ مگر افسوس کہ پہلے مرحلے کے کیمیائی مرکب سوڈیم سلفائیڈ سے لیکر آخری کیٹ آئیونک ویکس اور فنشنگ سلیکان تک کے سارے مرکبات غیر ممالک سے درآمد شدہ۔ پاکستان تو دور کی بات ترکی اور ملیشیا سمیت ایک بھی اسلامی ملک ایسا نہیں جن کے تمام مرکبات قابل بھروسہ ہوں اور ان سے تیار کردہ چمڑہ کی مصنوعات یورپ اور امریکہ کو برآمد کی جاسکتی ہوں ۔
قربانی کرنے کے بعد جو انتڑیاں اور دیگر لوازمات ہم ٹھکانے لگانے کے لیے رقم خرچ کرتے ہیں ۔یا زیادہ سے زیادہ مرغیوں کی خوراک کیلئے تیس روپے فی کلوگرام والا پروٹین بناتے ہیں، حالانکہ ان میں سے ایسے اینزائمز (امائلیز، پروٹیز اور لیپیز) حاصل کیے جاسکتے جو کپڑا رنگنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور کپڑے دھونے کے تمام مہنگے پاؤڈر میں بھی ڈالے جاتے ہیں ۔ یہ اینزائمز بہت مہنگے داموں ہم باہر سے درآمد کرتے اور بلاشبہ سالانہ کروڑوں ڈالر ان اینزائمز کی مد میں زرمبادلہ ضائع کرتے ہیں ۔
اسی طرح بھیڑوں کی چربی سے فیٹی ایسڈز اور صابن اور ان کی ہڈیوں سے جیلاٹن بنائی جاتی ہے۔ جیلاٹن کا سب سے بڑا استعمال دواؤں کے کیپسول کے خول ہیں ۔ اور دنیا بھر میں نوے فیصد جیلاٹن حرام جانوروں کی ہڈیوں سے بنائی جاتی ہے۔ جو ہم سب کھاتے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں کچھ کارخانہ جات نے اب حلال جیلاٹن بنانا شروع کردی ہے مگر اس کا حصہ ابھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہیں معلوم ہم کب علم حاصل کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا سیکھیں گے۔
ہمارے ہاں بھیڑ بکریاں زیادہ تر بکروال پالتے ہیں صرف پنجاب اور صوبہ سرحد میں انکی آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے ہاں شرح خواندگی قریب صفر ہے۔ اس شرخ خواندگی کے ساتھ اگر ہم چاہیں بھی کہ انہیں نئی ٹیکنالوجی سے روشناس کروا کر کم وقت میں زیادہ پیداوار لینے کے قابل بنادیں تو بھی شاید یہ ممکن نہ ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا اور تعلیم بھی بالکل وہ جو انکی ضرورت ہو جس میں ضروری علم کے ساتھ ساتھ مناسب تربیت کا بھی انتظام ہو۔
اب آپ حیران ہوں گے کہ ایسے خانہ بدوش کہ جو سارا سال ہی سفر میں رہتے ہیں اور کسی ایک جگہ پر ان کا پڑاؤ ایک ہفتہ یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک ہوتا ہے ان کیلئے باقاعدہ تدریس کا انتظام کیسے کیا جائے۔ تو جناب اس کیلئے بھی ہمارے پاس دنیا میں مثالیں موجود ہیں ۔ سوئٹزرلینڈ میں بالکل ہماری طرز کے خانہ بدوش بکروال بکریاں پالتے ہیں ۔ وہاں ان کی سرکار نے گاڑیوں میں موبائل سکول بناکردیے ہیں ۔ جو ان خانہ بدوشوں کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں ۔ جہاں خانہ بدوش پڑاؤ کرتے ہیں وہیں وہ سکول ٹھہر جاتے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے خانہ بدوشوں کا شرخ خواندگی بھی سو فیصد کر رکھا ہے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم صرف قربانی کے اس حکم رب کی درست توضیح کرتے ہوئے اس پر دل وجان سے عمل پیرا ہوجائیں اور حکمت سے دستیاب وسائل کا درست استعمال کرتے ہوئے اس شعبہ میں ہنر مندی کو فروغ دے لیں تو ہم باآسانی اپنے سارے معاشی مسائل سے نبردآزما ہوسکتے ہیں ۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟