Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Badlao

Badlao

بدلاؤ

آپ کسی چینی باشندے سے متعارف ہوتے ہیں، وہ اپنا تعارفی کارڈ دونوں ہاتھوں سے پیش کرے گا۔بہت بھلا لگتا ہے۔کسی دوست نے بتایا کہ پہلے پہل جاپانی لوگ ایسا کیا کرتے تھے۔پھر چینیوں نے ان سے سیکھ لیا۔

سال دو ہزار انیس دسمبر میں ہمیں نصف درجن سے زائد چینی شہروں میں درجنوں مختلف ہوٹلوں میں قیام کا موقع ملا۔ایک بھی ہوٹل ایسا نہیں تھا جس میں فون چارج کرنے کیلئے آپکو چارجر استعمال کرنا پڑا ہو۔ہر جگہ سوئچ بورڈ میں ایک چارجنگ ساکٹ لگا تھا جس میں ڈیٹا کیبل لگا کر فون چارجنگ کی جاسکتی تھی۔جبکہ اس سے سال بھر قبل سال دوہزار اٹھارہ میں بھی ہم اسی طرح نصف درجن سے زائد مختلف شہروں میں گئے ہوں گے۔ہر جگہ ہر ہوٹل میں فون چارجنگ کے لیے چارجر استعمال کرنا پڑا تھا۔

گویا کامیاب لوگوں میں یہ خوبی مشترک ہوتی ہے کہ وہ ہر اچھی چیز اور نئی بہتر ٹیکنالوجی کو فوراً اپنا لیتے ہیں ۔اگر اس تناظر میں ہم اپنے رویے دیکھتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ہم آج تک نہیں سمجھ پائے کہ ہم اچھی باتوں کو کیوں نہیں اپناتے۔کتنا آسان ہے کہ گھر سے سودا سلف لینے جاتے ہوئے آدمی کپڑے کاتھیلا ساتھ لیتا جائے۔ایک بار کی خریداری میں کتنا پلاسٹک ماحول میں پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔

دس روپے کی خریداری پر بھی بہت سے سٹورز یہ بڑی رسید دیتے ہیں ۔کروڑوں صفحات ہم ماہانہ صرف بجلی پانی اور گیس وغیرہ کے بلوں کی مد میں ضائع کردیتے ہیں ۔روزانہ سینکڑوں کلوگرام کاغذ محض ٹال پلازوں پر رسیدیں دینے میں خرچ ہوتا ہے۔جانتے ہیں ہمارے جیسے ملکوں میں تین سو سے چار سو لیٹر پانی ایک کلو کاغذ بنانے میں ضائع ہوتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں بھی بیس پچیس کلو پانی فی کلو گرام کاغذ ضائع کرنا پڑتا ہے۔

آج کے زمانے میں جب صبا ایزی لوڈ والی بھی میسیج پر مدد کی درخواست کرتی ہے ہم کیوں نہیں بل میسیج یا واٹس ایپ پر بھیج سکتے۔تقریبا سبھی لوگ اب اپلیکیشنز سے بل جمع کرواتے ہیں ۔جو نہیں کرواتے وہ محلے کے کسی دکاندار کے پاس جاکر اپنا کسٹمر نمبردے کر بل جمع کرواسکتے ہیں ۔کروڑوں روپے ماہانہ کے اخراجات جو بل چھاپنے اور ان کی ترسیل کی مد میں ہوتے ہیں بچائے جاسکتے ہیں۔

گلی محلوں میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں سرکار کو کوستے رہتے ہیں کہ اٹھانے کاانتظام نہیں کرتی حالانکہ انتہائی کم کوشش کرکے ہم اپنا کچرا ایک چوتھائی تک لاسکتے ہیں ۔پانی کے استعمال میں دانش اور حکمت سے بہت سے وسائل ضائع ہونے سے بچائے جاسکتے ہیں ساتھ ہی آنے والے دنوں میں پانی کی متوقع قلت سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

چھوٹی سی غلطی پر لوگوں کا ٹھٹھہ اڑانا، خود سے ذرا سا کم مرتبہ انسانوں سے تحقیر آمیز رویہ اختیار کرنا، مختلف رائے یا نظریات والے لوگوں سے منفی مباحث کرنا انہیں معطون کرنا سب ایسے رویے ہیں جنہیں ہم باآسانی تھوڑی سی برداشت اور تربیت سے بدل سکتے ہیں ۔۔مگر مشاہدہ اور تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ہم نہیں بدلتے۔

آئیں آج اس پر غور کرتے ہیں کہ ہم کیوں نہیں بدلتے۔اور اگر نہ بدلنے کی کوئی مثبت ٹھوس وجہ نہیں ملتی تو عہد کریں کہ کم سے کم ایک اچھی عادت آج سے ضرور اپنائیں گے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari