Taleem Ki Ahmiyat
تعلیم کی اہمیت
بالآخر سالِ نو، گیارہ جنوری سے باقاعدہ شہر لاہور میں تمام تعلیمی اداروں کو کھول دیا گیا۔ موسم کی شدت کے باعث چھٹیوں میں توسیع کی سفارش پہ عملدرآمد نہیں کیا گیا اور امید ہے کہ سموگ کی وجہ سے صوبائی حکومت کی جانب سے جو اعلان کیا گیا تھا کہ پندرہ جنوری تک ہفتہ، اتوار اور سوموار کو تعلیمی ادارے بند رہیں گے اور ہفتے میں صرف چار روز ہی بچے تعلیمی اداروں میں جا سکیں گے، وہ فیصلہ بھی بالآخر انجام کے قریب ہے، رواں ہفتے میں یہ بندش بھی انجام پائے گی اور یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ سترہ جنوری سے ہفتے کے چھے روز تک تعلیمی ادارے کھولے جائیں گے ویسے اچھی امیدیں باندھنا کچھ غلط نہیں۔
مگر ابھی فقط اسے قیاس آرائی ہی سمجھیے کیونکہ تعلیم کے دشمن موجودہ وقت میں بہت بڑھ چکے ہیں جنھیں اداروں کی بندش سے بےحد سکون ملتا ہے ان دشمن عناصر میں سہر فہرست کرونا و دیگر وبائی امراض سمیت شدید موسمی صورت حال بھی شامل ہو چکی ہے، معاملات فقط اداروں کی بندش تک محدود نہیں رہے، اداروں کا بند ہو جانا مطلب تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا معدوم ہو جانا۔ ہمارے معاشرتی حالات کے پیش نظر نسلِ نو کے لیے تعلیم ازحد ضروری ہے۔
وقت کی جدیدیت نے معاشرتی اقدار کو پامال کر دیا ہے، موجودہ وقت میں بچوں کے پاس تفریح کے اسباب بےتحاشا ہیں، جو انھیں شر کی جانب تیزی سے لے جا رہے ہیں، ان ذرائع شر میں سب سے زیادہ مقبول موبائل ہے، جو ہر عمر کے بچے کا ہردلعزیز ہے، اس شر کو روکنے کا واحد ہتھیار فقط تعلیم ہے، بدقسمتی سے ہم تعلیمی معیار اور تناسب میں ان ممالک کے بھی برابر نہیں جو معاشی لحاظ سے ہمارے ساتھ یا ہم سے پیچھے کھڑے ہیں۔
نسل نو میں اعلیٰ اوصاف اور اقدار کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ انھیں تربیت اور شعور سے ہمکنار کیا جائے اور اسکے لیے تعلیم سے فیض یاب ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم موجودہ وقت میں تعلیم کی اہمیت سے انکار کرتے رہے، تو پھر وہی ہوگا، جو گزشتہ سال چودہ اگست کو گریٹر پارک لاہور میں ہوا یا پھر وہ جو ہم نے جشنِ آزادی کی دھن میں مست نوجوانوں کو سڑکوں پہ بہکتے مچلتے سوشل میڈیا کی ویڈیوز میں دیکھایا ملک بھر میں مذہبی شدت پسندی کے وہ واقعات، جن میں شعور اور انسانیت کا برہنہ کھیل کھیلا گیا، کہیں رنجیت سنگھ کے بےجان مجسمے کو اس بنیاد توڑا گیا کہ یہ زمانہ ماضی میں اسلام دشمن تھا، تو کہیں گستاخی دین کو وجہ بنا کر ذاتی عناد سے نپٹا گیا۔
مگر ایسے اندوہناک اور ظالمانہ واقعات کو دیکھ کر بھی ہم آنکھیں موندے بیٹھے ہیں نہ ہی حکومت جاگتی ہے اور نہ ہی نجی سطح پر اس سلسلے میں کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس تعلیمی پسماندگی اور انسانیت سوز واقعات کو روکنے کے لیے اب ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت سے جڑی آس کی ڈوری کو توڑ دیا جائے، کیونکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نسل نو کی آبیاری کے لیے ہر شخص اپنا اپنا حصہ شامل کرے تعلیم کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اسے فروغ دیا جائے نو عمروں میں بہتر اقدار کی پرورش کے لیے ان کی تربیت کا سلسلہ گھر سے شروع کیا جائے تاکہ ہم شدت پسندی اور فحاشی کا تدارک کر سکیں معاشی ترقی کو بڑھاتے ہوئے معاشرتی روایات کا بھی تحفظ کر سکیں اور ایسا تب ہو گا، جب تعلیم عام ہو گی اور نوعمروں کی بہتر خطوط پہ تربیت کی جائے گی۔