Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Pakistan Aur Taraqi

Pakistan Aur Taraqi

پاکستان اور ترقی

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے موجودہ دن تک چوہتر سال، پانچ ماہ اور بائیس دن ہو چکے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم آج بھی ترقی کے بند دروازے کے پیچھے کھڑے ہیں اور دوسری جانب خوشحالی کو اس دروازے کی درز سے دیکھ تو سکتے ہیں، مگر دروازہ کھول کے اس خوش منظر سے فیض یاب نہیں ہو سکتے، یہ چھپا چھپی کا کھیل سالہا سال سے جاری ہے۔ اس کھیل میں مات کی اولین وجہ تعلیم سے کیا جانے والا سوتیلا سلوک ہے، کہنے کو شعبہ تدریس عبادت کا درجہ رکھتا ہے، اس سے بڑھ کر مقدس پیشہ اور کوئی نہیں۔ مگر ہماری قوم کی کم ظرفی دیکھیے ہم نے اس شعبے کو ایسا کمتر بنا کر رکھا ہے کہ بیشتر تعلیمی اداروں میں ایک استاد کی یومیہ تنخواہ، مزدور کی یومیہ اجرت سے بھی کم ہے۔

میری کزن کو کینٹ ایریا لاہور کے ایک چھوٹے، پرائیویٹ سکول میں وائس پرنسپل کی ملازمت ملی، اس کا سکول میرے کالج کے راستے میں تھا۔ یونہی ایک دن اس سے ملنے چلی گئی، گفتگو کے دوران میں نے اس کے سٹاف کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا ماشا اللہ سبھی اساتذہ گریجوایٹس ہیں اور بیشتر کے پاس ٹیچنگ پروفشنل ڈگری (بی-ایڈ) بھی ہے مزید تدریس کا تجربہ بھی ہے۔ میں نے کہا ارے واہ! یہ تو اچھی بات ہے کہ سکول بےشک چھوٹا ہے مگر سٹاف تعلیم یافتہ ہے مگر تنخواہ کے متعلق سوال پہ وہ ہنسی اور کہا اس بارے میں پوچھ کر شرمندہ نہ کرو۔

میں نے اصرار کیا پھر بھی بتاؤ تو سہی، اوسط سیلری کیا ہے؟ وہ بولی ہم بی اے، بی ایڈ ٹیچرز کو چھے سے آٹھ ہزار تک دیتے ہیں، اس سے زیادہ دینا ہماری استطاعت میں نہیں ایک ٹیچر جن کا تدریسی تجربہ چھے سال ہے، صرف اس کی تنخواہ بارہ ہزار ہے۔ یہ واقعہ تقریبآ ڈیڑھ سال پرانا، کرونا کے ابتدائی دنوں کا ہے باعث کرونا وبا، معاشی بدحالی سے لڑتے لڑتے وہ ادارہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا اور گزشتہ سال، ماہ اگست میں اسے بند کر دیا گیا۔ اور یہ کہانی ملک پاکستان کے شہر لاہور کے فقط ایک سکول کی نہیں، جہاں بی اے، بی ایڈ اساتذہ کی تنخواہ کا معیار ایسا پست ہے بلکہ اس ملک کے کونے کونے بےشمار اسی طرح کے سکول ملیں گے، جہاں پہ مجبور گریجوایٹس اپنی تعلیم کو خوار کرتے ملیں گے اور ان میں اکثریت خواتین کی ہے۔

کیونکہ ہمارا معاشرہ خواتین کے لیے فقط شعبہ تدریس کو بہتر گردانتا ہے اور معاشرے کی حالت اور تنگ سوچ کو دیکھتے ہوئے یہ گردان کچھ غلط بھی نہیں غریب گھرانوں کی لڑکیاں ایف اے، بی-اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد خاندان کی کفالت کو نکلتی ہیں اور ایسے چھوٹے، پرائیویٹ سکولوں میں جا گھستی ہیں، جن کا مقصد صرف اور صرف تعلیم کو خوار کرنا ہی ہے۔ نہ تو ان سکولوں میں تعلیم کا کچھ معیار ہوتا ہے اور نہ ہی محنت کش طبقے کی عزت۔ صرف اپنے گھروں کی دال روٹی چلانے کے لیے جس کو اور کوئی کام کرنے کو نہیں ملتا وہ کسی روپوش علاقے کی خستہ سی بلڈنگ پہ پرائیویٹ سکول کا بورڈ لگا کر پانچ چھے بندے بھرتی کر کے اسے تعلیمی ادارے کا درجہ دے دیتا ہے جو سراسر نوجوان نسل کے مستقبل سے کھیل اور معاشی شعبے کا استحصال ہے۔

تعلیمی شعبہ موجودہ وقت میں ہمارے ملک میں کاروبار کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پہ نجی سکولوں اور کالجوں میں، جہاں فیسوں کے نام پہ والدین کو دھڑا دھڑ لوٹا جا رہا ہے۔ حقیقت ہے اگر ادارہ کاروبار کی غرض سے کھولا گیا ہے، تو کاروبار کو قائم رکھنے کے لیے فیسوں کا آنا ضروری ہے، تب ہی اس ملک کا تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریوں کے نام پہ کاغذی پرزے لیے ایک دفتر سے دوسرے دفتر روزگار کے لیے دھکے کھاتا ہے اور پھر دس سے پندرہ ہزار کی نوکری کے لیے پورا مہینہ صبح سے شام تک گدھے کی طرح کام کرتا ہے۔ کیونکہ ہماری تعلیم ذہنی غلام پیدا کر رہی ہے۔ سب سے پہلے انگلش میڈیم نام کے بورڈ لگا کر، آکسفورڈ کا نصاب پڑھانے کا لالچ دکھا کر بچوں کو جھانسے میں پھنسایا جاتا ہے۔

ایک طرح سے بھلا ہو انگریزوں کا، خود چلے گئے انگریزی زبان کی لت لگا گئے، اس ملک میں تعلیم یافتہ اسے مانا جاتا ہے، جو انگریزی لکھنا اور پڑھنا جانتا ہو اور دوسرے درجے پہ دعاؤں کے حقدار آکسفورڈ والے ہیں جنھوں نے اپنا نصاب ہم تیسری دنیا والوں کو پڑھنے کے واسطے دے رکھا ہے ورنہ اول تو ہم اپنا ملکی نصاب اردو زبان میں مرتب ہی نہ کر پاتے دوئم اردو زبان کو ہم نے اس کی اوقات بتا دی ہے، وہی اردو زبان جس کے تحفظ کی خاطر یہ ملک پاکستان تشکیل دیا گیا اب ملک کی تشکیل کا ایک سبب اردو کا تحفظ تھا تو کیا اردو زبان کو سر ماتھے پہ ہی بٹھا لیں اور انگریزوں سے دشمنی مول لے کر ان کی مادری زبان کی تذلیل کر دیں انگریزوں سے رابطے بنیں رہیں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم انگریزوں کو یہ اعتماد دیں کہ ہمارے نوجوان آج بھی انگریزوں کے ہی غلام ہیں، اور ہم اپنی ہر نسل کو غلامی کا طوق تین سے چار سال کی عمر سے پہنا دیتے ہیں جب وہ کسی نہ کسی سکول میں داخلہ لیتے ہیں اور یوں ہر آنے والے سال میں ان کی غلامی کی زنجیریں مضبوط ہوتی جاتی ہیں پھر ایسی غلام نسل چاہے سکول میں ملازم ہو یا کسی اور ادارے میں، کم تنخواہ پہ بھی منہ بند کر کے ہی کام کرے گی۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari