Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Pakistan Aur Siasi Jang (1)

Pakistan Aur Siasi Jang (1)

پاکستان اور سیاسی جنگ (1)

اگر کہا جائے کہ رواں سال پاکستانی سیاسی بحران کا بدترین سال ہے تو کسی طور غلط نہیں۔ ملکی امن وامان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے معیشت تباہ و برباد ہے قرضوں کے بوجھ تلے ملک دبا پڑا ہے مہنگائی اور بےروزگاری عروج پر ہے مگر کیا کہنے؟ پاکستانی سیاست دانوں کے، سب اپنی لے میں مگن ہیں، عوام اور ملک جہنم میں جائے، پرواہ کسے ہے؟ انھیں تو اقتدار اور وزارتیں چاہیے، جو گاہے بگاہے اپنی اپنی باری پہ کسی کو مل رہی ہیں تو کسی سے چھینی جا رہی ہیں۔

عمران خان کے ہاتھ سے وزارت عظمیٰ کا قلمدان کیا گیا، ملک ایک سیاسی اکھاڑا بن گیا۔ پورے ملک کی صورتحال پہ بات کرنے سے پہلے پنجاب کی صورتحال کو دیکھیے، پندرہ دن ہو چکے ہیں اس صوبے کا کوئی پرسان حال نہیں، مارچ کے آخری ہفتے میں سابقہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کا استعفی پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابقہ وزیراعظم عمران خان نے چودھری پرویز الٰہی کی موجودگی میں لیا۔

اسکے بعد چودھری پرویز الہٰی جو سپیکر پنجاب اسمبلی ہیں انھیں عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کے خواب دکھائے اور وہ خواب پرویز الہٰی کی آنکھوں میں ایسے آبسے کہ انھیں دن میں بھی تارے نظر آنے لگے اکثریت کی حمایت حمزہ شہباز شریف کو حاصل ہے مگر انھیں وزیر اعلیٰ ماننے کو کوئی تیار نہیں نہ ہی گورنر پنجاب اور نہ ہی سپیکر پنجاب۔

عثمان بزدار کے استعفیٰ کے بعد عمران خان نے چوہدری سرور (سابقہ گورنر پنجاب)کو علیم خان گروپ کو سپورٹ کرنے کی اطلاعات پر عہدے سے برطرف کر دیا اور یہ اطلاعات بھی ماشاءاللہ پہنچانے والے پرویز الہٰی صاحب تھے۔ صدر مملکت نے تین اپریل بروز اتوار، آئین کے آرٹیکل 101 کے تحت چوہدری سرور کی برطرفی کے ساتھ ساتھ عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر پنجاب تعیناتی کی منظوری بھی دے دی تھی۔

اس تمام صورتحال میں صدر مملکت عارف علوی کا کردار بھی خوب رہا، بجائے معاملات ٹھیک کرنے کے وہ جانبدارانہ روئیہ اپناتے ہوئے تحریک انصاف کے محافظ بن بیٹھے ہیں۔ جو جو ہدایات عمران خان کی جانب سے انھیں مل رہی ہیں ان پہ وہ بلاتامل عمل کیے جارہے ہیں۔

2018 میں پاکستان مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ تحریک انصاف کی حمایت سے اسپیکر منتخب ہو گئے۔ یوں پنجاب میں نون لیگ کی حکومت بننے کے امکانات تقریباً ختم ہو گئے۔ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی میں نئے اسپیکر کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور پاکستان مسلم لیگ قاف کے رہنما پرویز الہی نے پاکستان مسلم لیگ نون کے امیدوار کو شکست دی۔ الہی کو عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی۔

ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں ہی وہاں حکومت بنانے کے دعویٰ کر رہی تھیں۔ انتخابی نتائج کے مطابق صوبائی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کو تحریکِ انصاف پر معمولی برتری حاصل تھی تاہم دونوں جماعتوں کو ہی حکومت سازی کے لیے دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی ضرورت پڑنی تھی۔

2018 الیکشن کے بعد لاہور میں مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز نے پریس کانفرنس کے دوران کہا: کہ اُن کی جماعت پنجاب میں حکومت سازی کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے میں ہے۔ 2013 میں جب ہمیں حکومت ملی تھی تو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے انھیں خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع دیا تھا انھوں نے یہ بھی کہا کہ انتخابات میں تمام تحفظات کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ترقی کرے۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق کا کہنا ہے کہ عوام نے انھیں منتخب کیا ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف پنجاب میں آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔

اس صوبے میں تحریک انصاف اور نواز لیگ کی نشستوں کی تعداد میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ تاہم پرویز الہیٰ کو پی ٹی آئی اور قاف لیگ کے امیدواروں کی تعداد سے بھی زیادہ ووٹ ملے۔ مسلم لیگ نون کے قریباً پندرہ ارکان نے بھی انہیں ووٹ دیے۔ پرویز الہیٰ نے مسلم لیگ نون کے ارکان کے شدید احتجاج کے دوران اسپیکر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ پنجاب اسمبلی میں 19اگست 2018 کو وزیر اعلیٰ کا الیکشن ہوا تو سردار عثمان احمد بزدار 186 ووٹوں سے جیت گئے۔ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے منصب پہ براجمان ہوئے۔

یہ تو طے تھا کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو شہباز شریف نے انتظامی حوالے سے پچھلے دس سالوں سے جس طرح سنبھال کر رکھا تھا وہ کاوشیں کافی حد تک قابلِ تحسین ہیں بےشک ان سے کوتاہیاں بھی ہوئیں لیکن اگر شہباز شریف اور عثمان بزدار کی کارکردگی کا موازنہ کریں تو معاملات خود بخود واضح ہو جائینگے۔

(جاری ہے)

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra