Pakistan Aur Siasat (5)
پاکستان اور سیاست (5)
ضیا الحق کا تشکیل شدہ توہین مذہب قانون گویا تمام قوانین پہ سبقت لے گیا جس بھی دور میں کسی سیاسی جماعت، لیڈر یا پھر کسی بھی بڑی شخصیت نے اس قانون سے چھیڑ خانی یا کسی بھی طرح کی مثبت یا منفی ترمیم کرنے کی کوشش کی اسے منہ کی کھانی پڑی یہ قانون مختلف ادوار میں ذاتی عناد کے لیے بھی استعمال ہوا اور موجودہ وقت میں بھی ہو رہا ہے کسی سے بھی نجی تناؤ کے باعث اس پہ توہین مذہب کا الزام لگا دینا، اس شخص کو خاکستر کرنے کے لیے کافی ہے اور اس قانون کی آڑ لے کر کئی لوگوں نے اسی ملک پاکستان میں ایسی انسانیت سوز حرکات کی ہیں کہ سوچ کر ہی روحِ انسانی کانپ اٹھتی ہے مگر فی زمانہ اس قانون کی شدت میں کسی طرح بھی کمی نہیں کی جا سکی یہ ملک پاکستان کا واحد قانون ہے جس کی شکنی کرنے والے پہ نہ تو ایف آئی آر کٹتی ہے نہ ہی مقدمہ چلتا ہے نہ کوئی پولیس، نہ وکیل، نہ جج۔ بس مجرم کے عینی شاہد (جن کے متعلق کہا نہیں جا سکتا سچے ہیں یا جھوٹے۔) ہونے ضروری ہیں جو ملزم کے متعلق گواہی دے سکیں کہ واقعتاً گستاخی ہوئی ہے بس اسی شہادت پہ عام شہریوں کی طرف سے بروقت ملزم کو اذیت ناک سزا دے دی جاتی ہے۔
ضیا الحق نے اپنی صدارت کو طول دینے کے لیے 19 دسمبر 1984 کو ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جس میں رائے دہندگان سے سوال پوچھا گیا کہ"کیا آپ صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیا الحق کی جانب سے پاکستان کے قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے، نظریہ پاکستان کے تحفظ اور استحکام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو جاری رکھنے اور عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کی پُر امن اور منظم تبدیلی کی حمایت کرتے ہیں؟"
عوام کو اس سوال کا جواب ہاں یا نہ میں دینا تھا۔ ہاں میں جواب کا مطلب تھا کہ جنرل ضیا الحق اگلے پانچ برس یعنی سنہ 1990 تک صدرِ مملکت رہیں گے۔ اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر کے لوگوں نے یہ پیغام دیا کہ وہ ملک میں نہ فوجی حکومت چاہتے ہیں نہ اس کا اسلامی نظام، بلکہ وہ اب اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیں اور ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں مگر 19دسمبر 1984ء کو منعقد ہونے والا یہ ریفرنڈم بھی ایک عجیب تماشا تھا۔
ایم آر ڈی کی جماعتوں نے اس کے بائیکاٹ کی اپیل کر رکھی تھی ملک بھر کے پولنگ اسٹیشنوں پر سناٹا چھایا ہوا تھا مگر جب نتیجہ آیا تو صدر ضیاء الحق بھاری اکثریت سے کامیاب ہوچکے تھے۔
ریفرنڈم میں اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کرنے کے بعد جنرل ضیا الحق نے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف اقدامات میں اضافہ کیا اور فروری 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کروا دیے۔ اپوزیشن جماعتوں کی تحریکِ بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کر رہی تھی جس کی رہنما بے نظیر بھٹو لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں جنرل ضیا الحق نے باقی ساری اپوزیشن کو نظر بند کر دیا اور ایسے سیاستدانوں کو آنے کا موقع دیا گیا جن کے ساتھ کام کرنے میں جنرل ضیا اور ان کے ساتھیوں کو آسانی ہو۔
عوام کو سنہ 1985 کے ان عام انتخابات میں آٹھ سال کے بعد اپنی رائے کے اظہار کا موقع مل رہا تھا، اس لیے لوگوں نے بڑی تعداد میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹ ڈالے۔ جنرل ضیا الحق کے کئی قریبی ساتھیوں کو شکست ہوئی اور ان کا ساتھ دینے والی جماعتِ اسلامی، جو أس وقت واحد سیاسی جماعت تھی اسے الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکا گیا۔
سیاسی مبصرین اور ماہرین یہی کہتے ہیں کہ شیر پر سوار ہو جانا آسان ہے لیکن اس پر سے اترنا مشکل ہوتا ہے۔ اور پاکستان کی سیاست کے حوالے سے تاریخ شواہد دیتی ہے یہاں پہلے تو اقتدار کو حاصل کرنے والا اول و آخر کا مالک بن بیٹھا مگر دوام کسی کو نصیب نہ ہوا پاکستانی اقتدار کی کرسی پہ جو زیادہ قوت سے براجمان ہوتا ہے کرسی اسی راہنما کی مطلق العنانیت کو اپنے وقت پہ ایسا خاک میں ملاتی ہے کہ پھر وہ دنیا سے تو کیا خود سے بھی نظر ملانے کے قابل نہیں رہتا یہ کچھ ضیاء الحق کے ساتھ بھی ہوا۔
17 اگست 1988ء کو بہاولپور کے قریب ایک ہوائی حادثے میں جنرل محمد ضیاء الحق کی پراسرار موت واقع ہوئی۔ ان کی موت کے حوالے سے تحقیقات بھی جاری رہی لیکن آج تک ان کی موت کے متعلق کوئی حقیقت سامنے نہیں آ سکی۔ طیارے میں ضیا الحق سمیت 29 لوگ جن میں چیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل اختر عبدالرحمن سمیت سینئر فوجی افسران سوار تھے۔ امریکی سفیر آنرڈ رافیل اور امریکی جنرل ہربرٹ ویسم بھی حادثہ کے وقت طیارے میں موجود تھے وہ بھی ضیاالحق کے ہمراہ پلک جھپکنے میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے
ضیاء الحق نے تقریباً گیارہ برس عنان حکومت سنبھالے رکھی۔ انکے حواریوں کا کہنا ہے17 اگست کا حادثہ جرنیل کے خلاف ایک سازش تھی ایسا ہونا خود بخود ممکن نہیں۔ الزامات کے دائرے میں کئی لوگ آئے مگر ثبوت کسی کے خلاف بھی نہ مل سکے۔ ضیا الحق کے بعد غلام اسحاق خان نگران صدر منتخب ہوئے۔
(29 مئی 1988 کو) 1985 میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو ضیاء نے وقت سے پہلے تحلیل کر دیا اس نے جونیجو اور ان کی کابینہ کے باقی افراد کو یہ کہہ کر برطرف کیا کہ"انتظامیہ کرپٹ اور ناکارہ تھی۔ "
نئی پولنگ کی تاریخ (آئین پاکستان کی طرف سے وضع کردہ قانون کے مطابق، تحلیل کے بعد 90 دن میں الیکشن ہونا لازم ہے)صدر نے 20 جولائی 1988 کو مقرر کی تھی۔ مزید یہ کہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ تاہم 17 اگست کو ضیا کی حادثاتی موت کے بعد سپریم کورٹ نے پارٹیوں پر عائد پابندی کو واپس لے لیا اور پارٹی کی بنیاد پر انتخابات کرانے کی اجازت دے دی۔
1988 انتخابات پاکستان کے چوتھے انتخابات تھے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان منتخب کرنا ان انتخابات کا مقصد تھا ان انتخابات کا سلسلہ صدر ضیاء الحق کے انتقال کے بعد شروع ہوا تھا ان انتخابات میں، پاکستان پیپلز پارٹی نے زور پکڑا اور ایک بار پھر عوام کی پسندیدہ جماعت کے طور پر ابھری جب کہ ضیا الحق کے حامی (جنہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تھا) ہار گئے۔ اور پیپلز پارٹی دوبارہ تخت اقتدار پہ براجمان ہوئی اس وقت پی پی کی قیادت بےنظیر بھٹو کے ہاتھ میں تھی 1988 میں پی پی کی کامیابی کے بعد بینظیر بھٹو پہلی عورت وزیر اعظم ہوئیں یہ پاکستان اور تمام اسلامی ممالک کے لئے پہلا اتفاق تھا کہ وزارت عظمیٰ کا قلمدان ایک عورت کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔
چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو نمایاں اکثریت حاصل نہیں ہو پائی تھی اس لئے وہ اکیلے حکومت نہیں بنا سکتے تھے لہذا انہوں نے دوسری رجعت پسند پارٹیوں (مثال کے طور پر متحدہ قومی موومنٹ، جس نے 1990 میں کراچی انتظام کیا) کے ساتھ مل کر سرکار بنائی۔ نواز شریف اور اسلامی جمہوری اتحاد ہار گئے۔
ضیا الحق کی موت کے بعد 1988 میں پپپلز پارٹی کے مد مقابل ایک اور سیاسی جماعت "مسلم لیگ نون/نواز" نے بھی جنم لیا اس جماعت کو 1988 میں محمد خان جونیجو کی پاکستان مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے والے فدا محمد خان نے تشکیل دیا۔ اس نئی جماعت کے سربراہ فدا محمد خان اور معتمد عام (جنرل سیکرٹری) نواز شریف تھے 1988 کے انتخابات تو مسلم لیگ نون ہار گئے مگر آگے آنے والے سالوں میں یہ جماعت زور پکڑتی گئی۔
(جاری ہے)