Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hania Irmiya/
  4. Pakistan Aur Siasat (4)

Pakistan Aur Siasat (4)

پاکستان اور سیاست (4)

کاروبار جہاں بھی کبھی کبھی عجیب رنگ دکھاتے ہیں بالکل اس شعر کی مانند

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

جب بولنے لگے تو ہمیں پر برس پڑے

ہوبہو معاملہ بھٹو کے ساتھ پیش آیا اس نے ضیا کو آسمان سا بلند کیا مگر وہ آسمان اسی پہ گر گیا پاکستانی سیاست کی تاریخ بھی نت نئے واقعات سے مزین ہے ایک واقعہ قتل کا خان لیاقت خان کا دیکھا بعد عرصہ مختصر مارشل لا حکومتیں اور پھر 1977 میں منتخب وزیراعظم کی پھانسی۔۔ ایسی کونسی طاقتیں ہماری ملکی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھیں یا اب تک بھی ہیں کہ بادشاہ کا تخت پلک جھپکتے ہی زمین بوس ہو جاتا ہے 1947 سے 1977 تک یہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

18 مارچ 1978ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ یوں ملک کے سابق وزیرِ خارجہ، سابق صدر اور سابق وزیرِ اعظم نے کوٹ لکھپت جیل میں قیدی نمبر 1772 کی حیثیت اختیار کرلی۔

کون جانتا تھا کہ نواب محمد احمد کا قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔ قتل کا واقعہ 11 نومبر 1974ء کو لاہور میں پیش آیا۔ نواب محمد احمد، احمد رضا قصوری کے والد تھے۔ وہ بھٹو کے ناقد بھی تصور کیے جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں یہ کیس سرد خانے میں پڑا رہا۔ مگر 5 جولائی 1977ء کو مارشل لا نافذ ہوا تو اس کیس میں جان پڑ گئی۔ کیونکہ بھٹو کو راستے سے مکمل ہٹانے کی صرف یہ ہی صورت تھی۔ 3 ستمبر کو معزول وزیرِ اعظم کو رات کے اندھیرے میں 70 کلفٹن سے گرفتار کرلیا گیا۔ اکتوبر 1977ء میں یہ کیس لوئر کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ پہنچ گیا اور اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔

بے رحم وقت نے پاکستان کے طاقتور ترین شخص کو مصائب کے منجدھار میں لا چھوڑا۔ بھٹو نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو بھٹو کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے پنڈی جیل منتقل کردیا گیا اور اس کی ہر اپیل کو مسترد کر کے معاملہ پھانسی تک لایا گیا۔

ملک میں تیسرا مارشل لاء لگ گیا پاکستان کی تاریخ کیسے کیسے الجھے راستوں سے گزر رہی تھی 71 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور 77 میں تیسرا مارشل لا اور ملک کے منتخب وزیراعظم کی پھانسی، مگر بھارت ہمارا ہمسایہ اور ماں جایہ، (ماں جایہ اس لیے کہ دونوں ملک ایک ہی مٹی کی پیداوار تو تھے) ہم عمر اور ہمسر رقیب ہر معاملے میں ہم سے بہتر تھا کیونکہ نہ تو اس کا کوئی حصہ اس سے کٹ کر الگ ہوا نہ ہی وہاں روز تخلیق سے کوئی آرمی انچیف ڈنڈے کے زور پہ ملک کا حکمران بنا یہ تو پاکستانی جرنیلوں کا وطیرہ بن گیا تھا جب موج بنی پی ٹی وی کے دفتر میں گھس کر جبراً اعلان کر دیا کہ سویلینز ملک کو لوٹ کر کھا گئے اس لیے مسیحا بن کر بچانے اب ہم آئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق ملک کے تیسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر 1977 تا دمِ آخر فوجی سپہ سالار اور فوج دونوں عہدوں پہ فائز رہے۔

ضیاء الحق نے پاکستان کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کی شعوری کوشش کی، اس سلسلے میں پروازوں میں شراب پیش کرنے پر پابندی لگائی۔ نظام صلوٰۃ قائم کیا، نظام زکوٰۃ کو شرعی اصولوں کے مطابق منظم کیا۔ اس حوالے سے ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانا بھی ہے۔ تشکیل پاکستان کے ابتدائی ایام میں قرار داد مقاصد جناب لیاقت علی نے مارچ 1949ء میں مجلس دستور ساز پاکستان کے اجلاس میں پیش کی تھی جو متفقہ طور پر کامیاب ہوئی۔

ضیاء الحق نے اس قرار داد کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنایا۔ یہ مرحوم کا بہت بڑا کارنامہ تھا 1980 اور 1986 کے درمیان جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے دور میں موجودہ آئینِ پاکستان میں بہت سی شقیں ڈالی گئیں۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے 11 سال کے دورِ حکومت میں ملک کے آئین میں متعدد تبدیلیاں کیں جن میں سے پانچ شقیں توہین مذہب کے قانون میں شامل کی گئیں۔

ان ترامیم میں شامل 295-B کے تحت قرآن کی بےحرمتی کرنے پر عمر قید کی سزا مقرر کر گئی جبکہ سب سے اہم ترمیم، 295-سی کے تحت پیغمبرِ اسلام کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی سزا موت یا عمر قید بشمول جرمانہ مقرر کی گئی۔ اس میں رسول ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنا، قرآن مجید کے خلاف گستاخی کرنا شامل تھا 1990 میں ضیا الحق کی ہی قائم شدہ وفاقی شرعی عدالت نے حکم سنایا کہ دفعہ 295-C کے تحت توہین رسالت کی سزا صرف موت ہوگی۔

توہین مذہب کے قوانین 19ویں صدی میں برصغیر میں انگریزوں کے رائج قوانین کے مرہون منت ہیں۔ تقسیمِ ہند سے تقریباً ایک صدی قبل 1860 میں انگریزوں نے مذہبی نوعیت کے بڑھتے ہوئے مذہبی جرائم کے سبب دفعہ 295، 296 اور 298 کے نام سے تین نئے قوانین انڈین ضابطہ تعزیرات میں شامل کیے تھےان کے تحت کسی عبادت گاہ کی بے حرمتی کرنا، مذہبی تقریب میں خلل ڈالنا اور مذہبی جذبات کو دانستہ طور پر مجروح کرنا جرم قرار دیا گیا تھا۔

انگریزوں کے بنائے گئے یہ قوانین کسی مخصوص مذہب کے لیے مختص نہیں تھے اور نہ ہی ان میں سے کسی قانون میں موت کی سزا متعین کی گئی تھی۔ انگریزوں کے نافذ کردہ قوانین کے برعکس ضیا الحق کے دور میں شامل توہین مذہب کی آئینی ترامیم میں توجہ صرف دینِ اسلام سے متعلق بےحرمتی اور گستاخیوں پر تھی۔

(جاری ہے)

Check Also

Izhar e Raye Ki Azadi

By Abubakr Syedzada