Pakistan Aur Siasat (1)
پاکستان اور سیاست (1)
ابھی کچھ ہی دیر پہلے ڈیلی اردو کالم کے فیس بک پیج کی ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں سوال تھا کہ عدم اعتماد تحریک اور پاکستان کی موجودہ صورتحال کے متعلق آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ فورا ذہن میں خیال آیا کہ پاکستان میں یہ معاملہ کوئی پہلا تو نہیں ہے چونکہ میں کالج اور یونیورسٹی طلباء اور طالبات کو مضمون مطالعہ پاکستان پڑھاتی ہوں اور جب تک ہم پڑھتے تھے تب تو صرف جملے رٹتے اور امتحان میں لکھ کر جان چھڑا لیتے پھر اگلے سال کی کتابوں کو رٹنے لگ جاتے سمجھ کہاں آتی تھی کہ جو لکھا ہے آخر کیوں لکھا گیا ہے؟
مگر اب جا کے کہیں ملک کی حالت سمجھ آئی کہ یہ ملک جسے دوسرا سعودی عرب کہا جاتا ہے جس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ یہ دنیا میں یہ دوسری بڑی ریاست ہے جو اسلام کے نام پہ قائم ہے مگر یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس ملک کی باگ ڈور آخر چلا کون رہا ہے عوام بچاری تو دال روٹی، بجلی، گیس، پیڑول اور ٹیکسوں کے جھنجھٹ میں الجھی ہوئی ہے سیاسی راہنما خود خوار ہو رہے ہیں تو ملک کی سیاست سے آخر کھیل کون رہا ہے؟ کیوں اس ملک میں حکمرانوں کو دوام نصیب نہیں؟
1947 سے شروع کرتے ہیں اگر کہا جائے کہ برصغیر کی تقسیم قائد اعظم کی اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کی مرہونِ منت ہے تو غلط نہیں کیونکہ اگر مسلمانوں کے پاس اس وقت قائد اعظم نہ ہوتے تو ہم آج بھی کشمیریوں کی طرح حق کی جنگ لڑی رہے ہوتے۔ مگر ہم آج تو قائد اعظم کی مدبرانہ سوچ اور مضبوط حوصلے کے قصیدے نصاب کی کتابوں میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں تو جب وہ ملک پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے تب کیا سیاسی حالات ان کے لیے موافق تھے؟ اس نکتے پہ سوچنے سے پہلے درج ذیل باتیں ضرور پڑھیے۔
یہ چند واقعات قائد کی زندگی کے آخری دنوں کی یادگزاشت ہیں "یہ پراسرار گتھی آج تک حل نہیں ہوسکی کہ قائد اعظم، محمد علی جناح کو شدید بیماری کے عالم میں کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ زیارت اپنے صنوبر کے درختوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے جناح کی آرام گاہ یا قائد اعظم ریزیڈنسی، زیارت سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ان کی بہن فاطمہ جناح نے اپنی کتاب مائی برادر، میں تحریر کیا ہے کہ کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا فیصلہ جناح کا ذاتی فیصلہ تھا کیونکہ ان کی سرکاری اور غیر سرکاری مصروفیات کے باعث کوئٹہ میں بھی انھیں آرام کا موقع بالکل نہیں مل رہا تھا فاطمہ جناح نے جولائی سے گیارہ ستمبر کے واقعات اس کتاب میں تفصیل سے لکھے ہیں وہ لکھتی ہیں کہ ان دنوں میں خان لیاقت علی خان سے ملاقات کا احوال کچھ یوں تھا کہ جب ملک کے پہلے وزیراعظم قائد اعظم سے ملنے آئے تو قائد کے الفاظ تھے کہ یہ دراصل دیکھنے آیا ہے کہ اس جگہ میں کس حال میں ہوں؟ اور لیاقت علی خان سے اس ملاقات کے بعد قائد اعظم کے اندر سے جینے کی امنگ ختم ہوگئی فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ بھائی کہتے تھے کہ فاطی میرے زندگی ہے یا نہیں، اب مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ وہ یہ بھی لکھتی ہیں کہ انھوں نے دوا کھانی بھی چھوڑ دی تھی اور ستمبر میں جب انھیں بہ اصرار کراچی لایا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ کراچی میں گورنر ہاؤس نہیں ٹھہریں گے۔
کراچی ائیر پورٹ سے ایمبولینس چلتے چلتے راستے میں ایک جھٹکے سے بند ہو گئی یوں کہ دوبارہ چلنے کو تیار ہی نہ تھی حالانکہ قائد اعظم کی کراچی آمد کو راز رکھا گیا تھا لیکن کیا سیاسی جاسوس ایسے بےخبر تھے یا پھر وہ ملک کے گورنر جنرل کی زندگی میں کسی طرح کی کوئی دلچسپی ہی نہ رکھتے تھے اس پس منظر میں جناح کی کراچی آمد سے حکومت کے کار پردازوں کی بے نیازی اور بے خبری، تصویر کے کس رخ کی نشاندہی کرتی ہے؟ یہ سوال آج بھی لمحہ فکریہ ہے۔
پاکستان میں انڈیا کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش نے اپنی کتاب پاکستان: قیام اور ابتدائی حالات، میں بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ: ان دنوں مقامی ریڈ کراس کے انچارج جمشید مہتا تھے جن کی عزت کراچی کا ہر فرد بشر کرتا تھا۔ بعد میں انھوں نے مجھے بتایا کہ مجھے شام کو پیغام ملا کہ ایک آدمی بہت علیل ہے۔ کیا آپ اس کے لیے ایمبولینس بھیج سکتے ہیں؟ یہ واقعہ ساڑھے پانچ بجے شام کا ہے۔۔
فاطمہ مزید لکھتی ہیں کہ خدا خدا کر کے کرنل نولز اور ڈاکٹر مستری ایک دوسری ایمبولینس لے کر واپس آئے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ وہی ایمبولینس ہوگی جس کا ذکر سری پرکاش نے کیا ہے۔ جناح کو سٹریچر پر ڈال کر اس ایمبولینس میں منتقل کیا گیا اور یوں شام چھ بج کر دس منٹ پر وہ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے۔ ایئر پورٹ سے رہائش گاہ تک کا نو میل کا فاصلہ جو زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ میں طے ہوجانا چاہیے تھا تقریباً دو گھنٹے میں طے ہوا۔ یعنی دو گھنٹے کوئٹہ سے کراچی تک اور دو گھنٹے ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس تک۔
یہ تو تھی ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حالت زار۔ اس کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم کی زندگی کا خاتمہ بھی پیش حال ہے۔۔
سولہ اکتوبر1951 کا دن تھا۔ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں پاکستان مسلم لیگ کے جلسۂ عام سے خطاب کرنا تھا۔ اوائل سرما کی اس شام نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ ان کےاستقبال کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی رہنما موجود نہیں تھا۔ مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔ پنڈال میں چالیس پچاس ہزار کا مجمع موجود تھا۔
مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔ وزیر اعظم نے ابھی برادران ملت، کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے پستول نکال کر وزیر اعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی۔ وزیرِ اعظم گر پڑے۔ فضا میں مائیکرو فون کی گونج لحظہ بھر کو معلق رہی۔ پھر تحکمانہ لہجے میں پشتو جملہ سنائی دیا دا چا ڈزے او کڑے؟ اولہ۔ یہ آواز ایس پی نجف خان کی تھی جس نے پشتو میں حکم دیا تھا کہ گولی کس نے چلائی؟ مارو اسے! نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ کیا انہیں معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے؟ ان کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔
نو سیکنڈ بعد نائن ایم ایم پستول کا ایک فائر سنائی دیا پھر یکے بعد دیگرے ویورلے ریوالور کے تین فائر سنائی دیے۔ اگلےپندرہ سیکنڈ تک ریوالور اور رائفل کے ملے جلے فائر سنائی دیتے رہے۔ اس وقت تک قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا۔ اسکا پستول چھین لیا گیا تھا مگر ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا۔
وزیر اعظم شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لائے گئے۔ وزیر برائے امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم کو اسی گاڑی میں ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔ لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پُراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
اس کے بعد 1956 کے آئین کو معطل کرنے والے آرمی انچیف نے 1958 میں اسمبلیاں توڑ کے ملک میں مارشل لا نافذ کیا۔
(جاری ہے)