Nashe Ka Ilaj Kia?
نشے کا علاج کیا؟
موسم دلفریب ہے۔ کیا پلان ہے آج کا؟ بینش نے پوچھا، مطلب؟ مطلب یہ کہ لنچ کا پلان۔ کچھ خاص نہیں۔ یہ سن کر بینش کی آنکھیں چمکیں اور بولی؛لنچ کرنے باہر چلیں۔ یہ سن کر میں ہنسی اور کہا سردی دیکھو تو۔ ارے سردی میں باہر گھومنے کا اپنا مزہ ہے لنچ کے بعد کافی بھی پیئں گے۔ یہ گفتگو کل دوپہر کی ہے جو میری ساتھی لیکچرار کی ساتھ ہوئی۔ لنچ کے پلان پہ میں نے اسے پوچھا گاڑی لائی ہو؟ وہ بولی نہیں۔
میں ہنسی اور پوچھا پھر کیسے جائیں گے؟ وہ چپ رہی۔ میں نے کہا کیا میں اپنے رکشے والے کو بول دوں کہ دوپہر کو جلدی لینے آ جائے۔ ایک اچانک خیال سے بینش کی آنکھیں چمکنے لگی، کہا؛ آج میرا پلان ہے سپیڈو ریڈ بس پہ پیکیجز چلتے ہیں۔ کیا؟ میں اس جواب پہ حیران رہ گئی۔ ہاں آج کچھ نیا کرتے ہیں۔ میں بھی تیار ہو گئی۔ چلو پھر آج کچھ نیا کرتے ہیں دوپہر ایک بجے ہم دونوں کالج سے نکلے فیروز پور روڈ سے سپیڈو ریڈ بس میں بیٹھے اور پیکیجز کی جانب چل پڑے۔
جنرل ہاسپٹل سے تین، چار فیمیل ڈاکٹرز جو شائد ابھی پریکٹس کرتی تھیں، بس پہ سوار ہوئیں ان کے سوار ہونے، اور سواریاں اترنے میں تیس سیکنڈ کا وقت لگا اسی مختصر سے وقت میں ایک آدمی مردوں والا دروازہ چھوڑ کے ان ڈاکٹرز کے قریب سے گزرا اور ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہوئے ایک ڈاکٹر کے وائٹ کوٹ کی جیب سے موبائل نکال لیا لڑکی کو تو پتہ نہ چلا مگر قریب ہی بیٹھی اڈھیر عمر خاتون نے دیکھ لیا۔
بسوں میں اکثر بڑی عمر کی خواتین چڑھتی اترتی سواریوں کو دیکھتی رہتی ہیں اس خاتون نے دیکھتے ہی فوراً ہی کہا وہ تمھارا موبائل لے گیا۔ کنڈکٹر نے ایک ہی جھٹکے میں اس موبائل چور کو ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا اور موبائل اس سے برآمد کر لیا۔ لڑکی کو تو بالکل پتہ نہ چلا۔ چور نے ایسا صفائی سے ہاتھ مارا مگر لوگ زیادہ تھے پکڑا گیا۔
ساری بس کے مرد اسکے گرد کھڑے ہو گئے کنڈکٹر نے اسے دو تھپڑ ایسے زناٹے دار لگائے کہ ایسا خاصا آدمی ہل جائے مگر اس نشئی پہ کوئی خاص اثر نہ ہوا اوہ میں بتانا بھول گئی دراصل چوری کرنے والا شخص نشے کا عادی تھا کیونکہ نشے کی عادت اس کے لہجے، حالت اور چہرے سے صاف واضح ہو رہی تھی اور فی الوقت بھی وہ تسکینِ نشے کی خاطر ہی موبائل چرا رہا تھا۔
کنڈکٹر نے بتایا کہ یہ شخص اس سے پہلے بھی مختلف جگہوں سے، سپیڈو بس کے سفر کے دوران دو بار پکڑا جا چکا ہے مگر یہ سدھرنے کو تیار نہیں۔ ایک خاتون نے اس چوری کا ذمےدار ڈاکٹر لڑکی کو ٹھہرایا خاتون کے الفاظ تھے کہ نوجوان لڑکیاں سڑکوں پہ چلتے دوران موبائل ہاتھ میں لیے گھومتی ہیں، تب کوئی نہ کوئی لفنگا ایسی واردات کر جاتا ہے انھیں موبائل اپنے پرس میں رکھنے چاہیے۔ مگر بزرگ خاتون یہاں غلطی پر تھی کیونکہ موبائل لڑکی کے ہاتھ میں نہیں کوٹ کی جیب میں تھا۔
ایک مرد کا کہنا تھا چھوڑو اسے، انسانی جان ہے وہ تو نشہ کر کر کے پہلے مرا پڑا ہے مرے ہوئے کو مزید کیا مارنا، مگر یہ زندہ لاش خود کو زندگی دینے کے لیے دن دھاڑے ان لوگوں کا نقصان کیے جا رہی تھی جو محنت مزدوری کر کے کما رہے ہیں، ایسے سفید پوش محنت کش لوگ اگر ان نشئیوں کے ہاتھوں لٹتے رہے تو ان کی محنت تو اکارت ہوئی۔
خیر میری ہمدردیاں تو کسی طور اس نشے باز کے ساتھ نہیں۔ نشہ نوجوانوں کے جسموں میں جانے والا وہ زہر ہے جو انھیں سکون تو دیتا ہے مگر اندر سے کھوکھلا کرتا جاتا ہے جیسے کھوکھلا تنا کبھی بھی مضبوطی سے شاخوں کو سنبھال نہیں پاتا اسی طرح ایک نشے کا عادی انسان خاندانی ذمےداریاں نہیں نبھا سکتا نہ تو وہ روزگار کرنے کے قابل رہتا ہے اور نہ ہی ذمےداریاں نبھانے کے، اسے صرف اپنے نشے سے غرض ہوتی ہے باقی دنیا چاہے سمندر میں ڈوب جائے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان نشے باز لوگوں کا حل کیا ہے؟ اگر ایسے لوگوں کو بےروزگاری کی حالت میں بیٹھے بٹھائے ضروریاتِ زندگی مہیا کر بھی دی جائیں تو ان کی ضرورت صرف روٹی، کپڑا ہی نہیں، انھیں روزانہ صبح شام نشے کی ایک ڈوس بھی چاہیے (جو مفت نہیں ملتی۔) ورنہ یہ تو خود کو کاٹ کھائیں گے یا اپنے نشے کی تسکین کے لیے اپنے ہی قریبی لوگوں کو مار دیں گے۔ اس لت کے عادی لوگوں کا حل فی الحال تو کچھ نہیں۔
ہاں کچھ ایسے ادارے نجی اور سرکاری طور پر کام کر رہے ہیں جہاں ان لوگوں کو سدھارنے کا کام کیا جاتا ہے کچھ اداروں میں ان لوگوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے اور ان کو دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لانے کی کوشش کی جاتی ہے، کچھ پہ علاج اثر کر جاتا ہے اور یہ تعداد دس فیصد ہی کی ہوتی ہے ورنہ باقی تو علاج کروانے کے بعد بھی دوبارہ اسی تباہی کی جانب مڑ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ یا تو بری صحبت کے باعث اس دلدل میں دھنستے ہیں یا پھر گھریلو مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے، گھر میں اگر بچوں کو مناسب وقت اور توجہ نہ ملے تو وہ باہر سکون ڈھونڈتے ہیں اور بسا اوقات یہ تلاش بےراہروی کی طرف لے جاتی ہے۔
انسانی جانیں ہیں سر راہ بٹھا کر انھیں بندوق سے اڑایا بھی نہیں جا سکتا۔ بس ایسے بے حالوں کے حال دیکھ کر عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔