Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Na Mukamal Zindagi

Na Mukamal Zindagi

نامکمل زندگی

زندگی اتنی مشکل بھی ہو سکتی ہے میں نے طوبیٰ کے چہرے کو دیکھا اور سوچا ہم نارمل زندگی جینے والے ایسے پریشان حال لوگ کو سمجھے ہی کب؟ جیسے ایک مکمل اعضا رکھنے والا انسان ابنارمل انسان کے باطنی دکھ سے انجان ہوتا ہے بالکل اسی طرح ہم سب بھی عام حالات سے کٹ جانے والوں کی اذیت سے ناواقف رہتے ہیں۔

مگر طوبیٰ کے چہرے پہ مکمل اطمینان تھا طوبیٰ میری نئی کولیگ، اس نے تقریباً دو ماہ پہلے ہی کالج جوائن کیا تھا۔ سانولی رنگت، تیکھے نقوش، نفیس لباس، چال ڈھال پروقار، بےحد جاذب نظر شخصیت رکھنے والی طوبیٰ، اک بار سرسری دیکھنے والا دوسری بار پلٹ کے اسے ضرور دیکھتا ہے۔

یونہی باتوں باتوں میں اس کی شادی کا ذکر نکل آیا جب میں نے پوچھا کیا آپ کی شادی ہو چکی ہے جواب آیا شادی ہو کے ختم بھی ہو چکی۔ اس نے مسکرا کر کہامیں نے حیران ہو کر پوچھا کیسے؟

بولی، بائیس کی تھی تو شادی ہوئی تیس کی ہوتے ہی بیوہ ہو گئی شوہر وفات پا گئے۔ بچے ہو نہ پائے بس آس تھی کہ کسی روز اللہ مہربان ہو جائے مگر آس ایسی ٹوٹی کہ زندگی ہی بکھر گئی پورا ایک سال تو خود کو سمیٹنے میں لگ گیا پھر جب حواس قابو میں آئے تو سمجھ آیا کہ سب ختم ہو چکا ہے۔

وقت بڑا من موجی ہے جس پہ مہربان ہے اس کی برائیاں بھی خوبیاں لگتی ہیں اور جس سے ناخوش ہے اس کی اچھائیاں بھی گناہ بن جاتی ہیں یہ ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ سسرال تو سسرال میکہ بھی بیگانہ ہو گیا یہاں تک کہ میرے اپنے والدین تک میرے لیے اجنبی ہو گئے پھر جیسے تیسے کر کے اب یہ ملازمت تلاشی میں نے، کہ چلو کسی کا نہ سہی اپنا بوجھ تو خود اٹھا لوں۔

میں اسے دیکھتی رہ گئی وہ دھیمی سی آواز میں زمانے کی تلخیوں کی داستان کہہ رہی تھی آنکھوں میں نمی تو تھی مگر وہ اسے چھپانے کا فن سیکھ چکی تھی ٹھہرے ہوئے آنسوؤں کو وہ حلق کے راستے دل میں اتار لے گئی اور پوری داستان کہہ کر پھر مطمئن ہو گئی۔

میں کتنی دیر کن انکھیوں سے اسے دیکھتی رہی، یوں کہ اسے محسوس نہ ہونے دیا کہ میری نظر اس پہ ٹھہری ہوئی ہے اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے میں اس کے دکھوں کا اندازہ لگانا چاہ رہی تھی مگر ملمع کاری میں وہ بےحد ماہر ہو چکی تھی تکلیف کا کوئی تاثر اس کے چہرے پر نہ تھا اس نے اپنے چہرے کی اداسی کو میک اپ کے رنگ کے اندر جذب کر رکھا تھا اور اس رنگ پہ گہرا رنگ ایک اور، جس نے اس کی ذات میں ٹھہراؤ اور دھیما پن سمو دیا تھا وہ تھا اس کی مسکراہٹ کا رنگ۔

ایک بار اس نے بلاجواز ہی یہ کہا تھا کہ اسکے والد اس کا گھر سے سج سنور کر نکلنا پسند نہیں کرتے بس اتنا کہہ کر وہ رک گئی تھی مجھے لگا شائد غیر شادی شدہ بیٹی کی تیاری والد کو پسند نہ ہو مگر میں نے یہ ضرور کہا چھوڑیں میم طوبیٰ اب تو آپ پروفیشنل ویمن ہیں آپ کے والد پھر کیوں اس قدر تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کا بات کا جواب حسب معمول اس نے مسکرا کر دیا اور خاموشی سے سر جھکا لیا۔

میں نے آج جانا وہ اپنی زندگی کی جنگ اپنوں کے ساتھ ہی لڑ رہی ہے وہ ایسا فرد خانہ تھی جسے اس کا گھر ہی قبول نہیں کر رہا تھا، ہم مشرقی معاشرے والے اپنی روایات کا ڈھنڈورا بہت پیٹتے ہیں کوئی ذرا ہی آزادی کی صدا لگائے ہم سب فوراً الرٹ ہو کر اس کے خلاف محاذ لگا لیتے ہیں کہ کہیں یہ ہماری روایات کا بازار درھم برھم نہ کر دے۔ اور پھر ہم پوری قوت سے چینختے ہیں، کیوں بھئی عورت تو گھر کی چار دیواری کی زینت ہے اسے باہر کیوں نکالیں، وہ بے پردہ کیوں گھومے، محرم رشتوں کے علاؤہ نامحرم کے قریب جانا بھی گناہ ہے وہ کیوں ایسی جسارت کرے؟

ہم عورت کو رشتوں کے بند سے باندھ کر رکھتے ہیں اس کے تحفظ کی دہائیاں دیتے ہیں کہ جیسے ہمارا معاشرہ عورت کی حفاظت کرتا ہے کوئی اور کر کے دکھائے مگر یہ رشتوں کی گرفت مطلقہ یا بیوہ کے لیے کیوں کمزور ہو جاتی ہے کیوں اسے تحفظ دینا ہم اپنا فرض نہیں سمجھتے، بھائی کو وہ وبال لگتی ہے اور باپ کو دگنا بھاری بوجھ، جس سے چھٹکارا پھر ممکن نہیں۔ یہاں تک کہ ماں جسے دنیا میں خدا کا روپ کہتے ہیں وہ تک بدل جاتی ہے۔

آٹھ مارچ خواتین کا عالمی دن زور شور سے منایا جاتا ہے پوری دنیا میں کامیاب خواتین کے کارناموں کو خراجِ تحسین دی جاتی ہے ان کے طریقہ رہن سہن، علم، تربیت، سوچ، خیال کو دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم آج تک ان عورتوں کو جائز حق نہیں دلوا سکے جو واقعی کی مستحق ہیں جن کے پاس گھر کی چار دیواری کا سکون نہیں۔

مرد طلاق دے یا بیوی خلع لے، اس کی بیوی مر جائے یا ناراض ہو کے میکے بیٹھی رہے اسے فرق نہیں پڑتا کیونکہ اسے کہیں سے بے گھر نہیں کیا جاتا، مگر عورت باپ کے گھر میں بھی پرائی ہے اور سسرال بھی اس کا اپنا نہ رہے تو وہ جائے کہاں؟

اور اگر وہ باہر نکل کر اپنا حق مانگے تو بدکردار۔ کیونکہ آزاد عورت ہمارے معاشرے کے لیے ناسور کے مترادف ہے کیونکہ ہمارے معاشرے نے روز اول سے عورت سے صرف صبر اور تحمل مزاجی کی امید لگائی ہے۔

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra