Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Mazhabi Inteha Pasandi

Mazhabi Inteha Pasandi

مذہبی انتہا پسندی

ہر دور میں بہا ہے خون ذمی کا، مگر کیسا المیہ ہے پاکستان کے قیام کو چوہتر برس گزر چکے ہیں مگر اس ملک میں مسلمان عوام کا توہین رسالت کا مسئلہ جوں کا توں ہے کسی بھی زمانے کی حکومت ان مذہبی شدت پسندوں کے اس مسئلے کو حل نہیں کر پائی اور ہر بار ان کے تشدد کا نشانہ کوئی نہ کوئی غیر مسلم بنتا رہا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان نے سیالکوٹ واقعے کی پرزور مذمت کی ہے حالانکہ ملک کا انتظامی سربراہ ہونے کی حیثیت سے انھیں تو سری لنکن حکومت اور ان کی عوام سے معافی مانگنی چاہیے تھی کہ ان کے دورِ حکومت میں غیر ملکی، غیر مسلم کے ساتھ ذاتی رنجش کے معاملے کو مذہبی تشدد کا رنگ دے دیا گیا۔ ظلم اور بربریت کا ایسا اندوہناک واقعہ کہ جس میں مشتعل ہجوم نے ایک شخص کے دانستہ یا غیر دانستہ کاغذ کو دیوار سے اتار کر پھیکنے پہ اسے درندوں کی طرح مار کر جلا دیا گیا اور ظلم کرنے والے اس کے بعد خود کو عاشقانِ رسول کے لقب سے نواز رہے ہیں۔

مذہبی شدت پسندی ہماری معاشرتی جڑوں کو دیمک کی طرح کھا گئی ہے انسان درندوں کے درجے سے بھی گر گیا اس وقت ہمیں آنکھیں کھول کر جرات سے ان حقائق جو سامنے لانا ہو گا جس کا موجب مذہبی شدت پسندی بن رہی ہے ورنہ سیاستدان، دانشور، علما اور میڈیا صرف حادثات کے واقعات پہ الرٹ ہو جاتے ہیں اس کے یہ سب معاشرے کو وقت کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر لمبی چادر تان کے سو جاتے ہیں تاکہ اس طرح کے واقعات پھر ملک کے کسی اور کونے میں رونما ہوں تو وہ جاگیں۔

اس وقت بھی ہرسو سیالکوٹ حادثہ کی چرچا ہو رہی ہے مگر اس ظلم کے پیچھے کام کرنے والے متغیرات پہ بات کرنے کی ضرورت ہے آخر ایسی جرات ان ورکرز کو کیسے ہوئی؟ کیونکہ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ توہین رسالت کا نام لے کر اس منیجر کے ساتھ جس طرح کا چاہے تشدد کر سکتے ہیں جو جو بھی اس بارے میں سنے گا اسے لعن طعن کرے گا اور اسے مارنا اپنا دینی فریضہ سمجھے گا۔

اس کے بعد دوسرا نکتہ اٹھایا جا رہا ہے کہ گستاخی مرتکب کرنے والے کو ریاست کے حوالے کرنا چاہیے تو شائد آسیہ بی بی کا کیس معاشرہ بھول چکا ہے لڑائی کے دوران کیے گئے طنز کے تیروں کو آخر میں مذہبی رنگ دے دیا گیا اور اس خاتون کو بالآخر گرفتار کر لیا گیا اور جس جس نے اس کی حمایت کی غلطی کی اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ گورنر سلمان تاثیر کو فقط اس خاتون کی حمایت میں قتل کر دیا گیا اس کے خاندان کا مکمل شیرازہ بکھر گیا اس کے کچھ دنوں بعد اقلیتی حقوق کے غیر مسلم وزیر کو بھی اسلام آباد میں گولی مار دی گئی۔

اس خاتون نے اپنی زندگی کے کئی سال جیل میں گزار دئیے اور جب 2018 میں اسے سزا سے بری کیا گیا تب بھی سڑکوں پہ عدالتوں کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا مطالبہ تھا اس ملعونہ کو سزائے موت دی جائے اور اس بات کا مجھے یقین ہے کہ اگر وہ عورت بھی ہجوم کے ہتھے چڑھ جاتی تو اس کا بھی بدترین حشر ہوتا۔

میرا سوال فقط یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم جو دین اسلام کی اہمیت و فضیلت سے نابلد ہے اگر وہ کسی بھی حالت میں گستاخی کرے اس کے بعد معافی مانگ لے کہ اس سے غلطی ہو جائے وہ معافی چاہتا ہے تو کیا دین اسلام میں اس کے معافی نہیں کیا صرف موت اور وہ بھی بدترین موت اس کی سزا ہے کیا دین اسلام معافی اور سلامتی کا دین نہیں کیا حضرت محمّد تمام انسانوں کے لیے رحمت العالمین نہیں؟

نتھا کمارا نے بالفرض دانستہ طور پر بھی وہ اسٹیکر پھاڑ دیا ہو مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ اب ہی کیوں اسے مذہب اسلام کی بےحرمتی کا خیال آیا؟ پچھلے دس سال کیا اس نے کسی طرح کی کوئی گستاخی نہ کی تھی کہ اسے سزا دی جاتی اور اگر کسی غیر مسلم شہری سے جانے انجانے مقدس صفحات کی بےحرمتی ہو جاتی ہے تو علمائے کرام اور شدت پسند مذہبی عوام کو اخبارات، رسائل، کتب اور ہر طرح کے صفحات پہ قرآنی آیات، احادیث، مذہبی اقوال، صحابہ کرام کے واقعات لکھنے پہ احتجاج کرنا چاہیے کیونکہ یہ تمام چیزیں ہر روز ملک کے کسی نہ کسی حصے میں بے آبرو ہو رہی ہوتی ہیں۔ سڑکوں پہ پڑی ملتی ہیں صفحات پیروں تلے روندے جاتے ہیں نان بائی اس میں نان، اور پھیری والا اس میں کھانے کی اشیا بیچتا ہے تب کسی کو توہین کا امر پیش نگاہ نہیں ہوتا جہاں ذاتی رنجش ہو وہاں مذہبی جوش خون مارتا ہے۔

اور یہ مسئلہ حکومتی ناانصافی نہیں بلکہ حکومت تو خود بےبس ہے جس بھی حکومت نے انسانوں کو اس تشدد سے بچانا چاہا ہے اس حکومت نے ابتری ہی دیکھی ہے۔ مذہبی معاملات پہ احتجاج، مار دھاڑ، قتل و غارت صرف پاکستان ہی میں کیوں؟ انڈیا میں مسلمان عوام کے ساتھ ناروا سلوک کی تو بہت دہائیاں دی جاتی ہیں کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتں محفوظ ہیں؟

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra