Kashmir Jal Raha Hai
کشمیر جل رہا ہے
تقریباً چھے ماہ پہلے ایک آن لائن پروگرام میں میری گفتگو ایک ادیب سے ہوئی، نام پوچھا، ہانیہ ارمیامیں نے بتایا۔ ملک اور شہر کا نام؟ میں نے بڑے فخر سے لاہور، پاکستان بتایا۔ میری جانب سے جگہ کے استفسار پہ جو جواب ملا، وہ بے حد عجیب تھا۔ اس شخص نے کہا میرا تعلق اس سر زمین سے ہے جس کی منگنی تو پاکستان سے ہوئی، مگر نکاح بھارت سے کر دیا گیا۔ اب آپ خود ہی میرے ملک اور شہر کا اندازہ لگا لیجئے۔ میں نے ایک لمحے کے لیے ذہن پہ زور ڈالا اور کہا، کیا وہ جگہ مقبوضہ کشمیر ہے؟ جواب مسکرا کر ملا، آپ تو کافی ذہین ہیں۔ میں نے کہا، یہ سب بچپن سے کتابوں میں پڑھ رہے ہیں، ایک لمحے میں آپ کا عجیب وغریب اشارہ سمجھ میں آ گیا۔
وہ افسردگی سے بولاآپ لوگ تو بچپن سے فقط پڑھ رہے ہیں، ہم تو بچپن سے یہ سب برداشت کر رہے ہیں۔ میں خاموش ہو گئی کیونکہ بہتر بھی یہ ہی تھا، ہم جس پوسٹ کے کمنٹ میں گفتگو کر رہے تھے وہ ایک انڈین رائٹنگ ایپ پہ کی گئی تھی، اور وہاں پہ اور بھی بہت سارے انڈین موجود تھے۔ مجھے اس موضوع پہ گفتگو کرنا مناسب نہ لگا۔ سائبر کرائم نے انسان کو بہت ساری ایسی قیود میں باندھ رکھا ہے کہ، کبھی کبھی آپ صحیح ہوتے ہوئے بھی براہ راست اپنی صفائی نہیں دے سکتے۔ اگلے دن میں نے ان صاحب کی پروفائل چیک کی، وہ شخص مقبوضہ کشمیر کا رہنے والا تھا، تعلیم ایم اے انگلش اور پیشہ کالج لیکچرار۔
میں بےحد متاثر ہوئی کہ تعلیم ہر رنگ اور ہر حال میں انسان کے ساتھ وابستہ ہے۔ دو ہفتے بعد اس شخص کی پروفائل اس ایپ پہ بین کر دی گئی، میں پروفائل بین ہونے کی وجہ سمجھ گئی۔ یہ ہونا ہی تھا کیونکہ وہ شخص جس کا نام محمد طحہٰ تھا، وہ اس ایپ پہ کشمیر پہ بھارت کے زبردستی قبضہ کے خلاف بہت زیادہ لکھا کرتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کشمیر کے 98 فیصد لوگ ہر صبح اٹھ کر فقط ایک ہی دعا کرتے ہیں اور دعا وہ اپنے لیے، یا اپنے گھرانوں کے لیے نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی اور پاکستان میں شمولیت کے لیے ربّ العزت کے حضور التجا ہوتی ہے۔
اور اس کا کہنا تھا کہ ہم کشمیری اپنا تن، من، دھن سب قربان کرنے کو تیار ہیں صرف اس ایک حسرت کی تکمیل کی خاطر، کہ ہم آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بن جائیں۔ اور پاکستان کا جھنڈا ہم کشمیریوں کے لیے اتنا معتبر ہے کہ ہم اسے اپنی جان سے بھی عزیز رکھتے ہیں۔ سر پہ عزت کے طور پہ اسے باندھ کر رکھتے ہیں، اس جھنڈے کو سینے سے لپٹیے قبر میں اتر جائیں کیسی بڑی سعادت ہو گی؟ پاکستان کی حکومت کی طرف ہماری امید بھری نظریں لگی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ، پاکستان والے ہمارے درد کی گہرائی کو خوب جانتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کی ایسی والہانہ محبت، پاکستان کے لیے اور ایسا جوش و جذبہ بھارت کو کسی صورت قبول نہیں، اس لیے محمد طحہٰ کا اکاؤنٹ بین کر دیا گیا۔ بھارت کی پاکستان دشمنی تقسیمِ برصغیر کے فیصلے سے شروع ہو گئی تھی۔ تشکیلِ پاکستان سے قبل ہی ہندو، لفظ پاکستان سے بےحد نفرت کرتے تھے۔ انھیں پاکستان کا قیام کسی صورت منظور نہ تھا لیکن اس نفرت کے باوجود بھی، اللہ ربّ اُلعزت نے مسلمانانِ ہند کی کاوشوں اور دعاؤں کو قبول کیا اور پاکستان کا خواب زندہ تعبیر ہوا۔
پاکستان کی اس فتح پہ بھارت ایسا آگ بگولا ہوا کہ، اس نے نفرت کی اس آگ میں معصوم کشمیر کو جھونک دیا۔ کشمیر 1947 سے جل رہا ہے۔ 74 سال گزر چکے ہیں مگر نفرت کی آگ آج بھی ویسی سلگ رہی ہے، ذرا برابر بھی کمی نہ آئی۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں، کہ کشمیری 1947 سے پہلے بھی تکلیف میں تھا۔ ڈوگرا راجا نے تقسیم سے پہلے بھی ان کی زندگی عذاب بنا رکھی تھی، تقسیمِ ہند کی خبر ان کے لیے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سی تھی، مگر یہ جھونکا اس وادی کو چھونے سے پہلے ہی گرم مرطوب ہوا میں بدل گیا۔ جب ڈوگرا راجا نے بھارت کے ساتھ ساز باز کر کے، کشمیر کا الحاق پاکستان کی بجائے بھارت سے کر دیا۔
کشمیر جل رہا ہے۔ ٹھنڈے جھرنوں اور فرحت بخش جھیلوں والی بستی، جسے قدرت نے دنیا پہ جنت کا مقام بخشا وہ نفرت کی نذر ہو گیا اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ، ان معصوم کشمیریوں کے غم کا مداوا کسی کے پاس بھی نہیں۔ بین الاقوامی امن تنظیمیں خاموش تماشائی بنی اس ظلم کو دیکھ رہی ہیں، اور ہم پاکستانی لاکھ چاہنے کے باوجود اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی قید کا تالا کھول نہیں سکتے۔