Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Imtehanat Ka Ghair Shaffaf Nizam

Imtehanat Ka Ghair Shaffaf Nizam

امتحانات کا غیر شفاف نظام

"شاخ نازک پر بنے گا جو آشیانہ ، ناپائیدار ہو گا"،علامہ اقبال۔

بات کی جائے اگر ملک پاکستان کے تعلیمی نظام کی، تو بحث نوجوان نسل کے تاریک مستقبل پہ آ کر ختم ہو جاتی ہے ہمارے تعلیمی نظام کا مقصد نوجوانوں کے ہاتھ میں کاغذ کی ڈگریاں تھما کر انھیں روزگار کی قطار میں کھڑا کرنے کے بعد رزق کے پیچھے بھگانا ہے ہم نے کبھی اپنی نسلوں کی ایسی تربیت ہی نہیں کی کہ وہ تعلیم کی دولت کو بروئے کار لا کر دنیا میں نام کما سکیں، بلکہ وہ جنھیں حصول علم کے بعد حقیقی معنوں میں انسان بننا ہے وہ روزگار کے نام پہ گھوڑے، گدھوں کی طرح ریزگاری کر رہے ہیں۔

تعلیمی بدحالی کی وجہ کوئی ایک نہیں بلکہ پس منظر میں کئی وجوہات پنہاں ہیں جو ہر آنے والے دن کے ساتھ پرزور ہوتی جا رہی ہیں۔ تعلیمی تنزلی کے بےشمار اسباب میں سے ایک امتحانات کا غیر مؤثر طریقہ اور غیر شفاف نظام ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام صدیوں سال پرانا ہے۔ ہم نے جدوجہد کی عظیم مثال قائم کرتے ہوئے الگ ملک تو حاصل کر لیا، مگر اس ملک کے نوعمروں کو اپنا خود ساختہ تعلیمی نظام نہ دے سکے۔

تعلیمی نظام تو بہت دور کی بات ہے، تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب بھی جدیدیت سے بہت پرے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جو موضوعات بچے چوتھی پانچویں جماعت میں پڑھتے ہیں، وہ عنوانات ہمارے ملک میں بی۔ اے کے بعد بچوں کے دماغوں میں کہیں سما پاتے ہیں، اس بات کی تصدیق اس مثال سے کر لیجیے کہ ہمارے بچے 1947 کے بعد سے اپنے ملکی حالات سے بھی واقف نہیں، ملک کے پہلے وزیر اعظم کے قتل کا واقعہ ہو یا سانحہ مشرقی پاکستان، وہ ان معاملات کی سنگینی سے بے خبر ہیں۔

1971 کی جنگ تو وہ جانتے ہیں مگر اس جنگ کی اصل سے واقف نہیں کہ کیوں پچس سال بعد ہی اس ملک کے مشرقی حصے میں رہنے والے، اپنے ہی ملک سے اتنے بےزار ہو گئے کہ انھوں نے مکمل علحیدگی اختیار کر لی۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمارے بچے گریجوایشن تک اپنے ہی قومی و ملکی حالات سے آگاہ نہیں ہوتے، تو اس بات کی امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کی جدیدیت سے واقف ہوں گے۔

تعلیمی نظام کی دوسری بڑی کمزوری نقل اور چھپائی ہے، سکول کے دور میں ہی ہمارے بچے " پبلشرز " بن جاتے ہیں۔ تماشا دیکھیے جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے پھر خود ہی نمبر بھی دے دیتے ہیں۔

بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کر دیتے ہیں، آٹھویں جماعت تک ہونے والے سالانہ امتحانات میں جو کھیل چلتا ہے اس کا مختصر احوال سنیے۔ ان امتحانات کی حقیقت جان کر خود پہ افسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو کس طرح پامال کر رہے ہیں، فیل ہونے پہ کہیں والدین بچوں کا سکول تبدیل نہ کر دیں، اس ڈر سے بہت سارے نجی سکول سالانہ امتحانات میں بچوں کو پاس کر کے اگلی جماعت منتقل کر دیتے ہیں۔ جس سے والدین خوش ہو کر بچے کی سکول تبدیلی کا خیال تک دماغ کے آس پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔

ماں باپ سالانہ نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، حالانکہ سکول کے یہ امتحانات ان اساتذہ کے رحم و کرم پہ ہی ہوتے ہیں اور زیادہ تر بچوں کو استاد خود نمبر دے کے پاس کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ سالانہ امتحانات میں اساتذہ کو ادارے کی طرف سے کسی کو فیل نہ کرنے کی ہدایت جاری کی جاتی ہے اور خالی پرچے اساتذہ خود حل کر کے بھی پیشہ تدریس کا حق ادا کرتے ہیں اور بدقسمتی سے جن والدین کے بچے سرکاری اداروں میں پڑھتے ہیں اور فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو کوڑھ مغز اور کند ذہن کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔

کبھی یہ وجہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ بچہ پورا سال پڑھنے کے بعد بھی پوری کتاب میں سے پانچ سوال پرچے میں لکھ نہیں پایا۔ طالب علموں کا اسکول میں زیادہ تر وقت سائنس کو "رٹتے" گزرتا ہے اسکے باوجود ہمیں پورے ملک میں کوئی سائنس دان نامی چیز نظر نہیں آتی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس سیکھنے کی اور خود تجربہ کر کے سیکھنے کی چیز ہے ہم بچوں کو اسکا بھی رٹا لگواتے ہیں۔

یہاں تک کہ اکثر بچے ریاضی کے فارمولوں اور اردو کے اشعار کی تشریح کے بھی رٹے لگاتے نظر آتے ہیں، جنھیں ذہن نشین کرنے کے بعد سمجھ کے خود لکھا جاتا ہے سکول کے پہلے سال سے یونیورسٹی تک ہمارا نظامِ امتحانات تحریری ہے اور اس تحریری امتحان میں سرخرو ہونے کے رٹا لگانے میں ماہر ہونا ضروری ہے بہت سارے بچوں کے امتحان میں ناکامی کی وجہ کتابی مواد کو ذہن نشیں کرنے کی صلاحیت کا کمزور ہونا ہے

تاریخ بتاتی ہے کہ میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس "پاسنگ مارکس" 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کر دیے گئےاور ہم بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ کچھ پانچ سال پہلے ان پاسنگ مارکس کی تعداد 33 سے بڑھا کر 40 کر دی گئی ہے۔

سالانہ بورڈز امتحانات میں طلبا اور طالبات کی قابلیت کو جانچنے کا ایک معیار اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نام سے منسوب ہونا ہے پرائیویٹ امیدوار کبھی بھی نمبروں کی اعلیٰ سطحوں کو چھو نہیں پاتےگزشتہ دو سالوں میں بباعث کرونا وبا نویں تا بارھویں طلبا وطالبات کے ساتھ امتحانات کے معاملے میں جو ذیادتی برتی گئی ہے اس سے کون واقف نہیں اور ان امتحانات کے نتائج کو جس انداز سے مرتب کیا گیا اسے تعلیمی وزرا کی کم عقلی کہیے یا نوجوانوں کے مستقبل سے کیا گیا مذاق۔

امتحانات کی جدید شکل آن لائن پیپرز ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے اس طریقہ امتحان سے طلبا و طالبات کی اکثریت ناواقف ہےتعلیمی شعبے کی بدحالی اور طلبا و طالبات کا استحصال توجہ طلب ہے مگر المیہ یہ ہے نجی تعلیمی اداروں سے لے کر اعلیٰ سرکاری عہدے داروں تک سب آنکھ بند کیے بیٹھے ہیں ان مسائل کا تدارک کرنے والا کوئی نہیں مگر ہم امتحانات کی غیر شفافیات کو جانتے ہوئے بھی نظر انداز کرتے جا رہے ہیں یہ بھول کر یہ نوجوان نسل ملک و قوم کا مستقبل ہے اور ہم اپنی لاپرواہی سے اپنے مستقبل کو داؤ پہ لگا رہے ہیں۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari