Aurat
عورت
وہ میرے سامنے بیٹھی تھی اور کافی پریشان بھی تھی اس نے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے میں نے موبائل سے نظر ہٹا کر اس کے پریشان چہرے کو دیکھا مجھے لگا کہ شائد میری ہمدردی کے دو بول اسے تسلی دے سکیں۔ میم نرگس! چلیں چھوڑیں دل پہ مت لیں اس بات کو اب، زندگی میں کئی بار ایسا ہو جاتا ہے میں دھیمے انداز میں گویا ہوئی، اس کے چہرے پہ پھیکی سی ہنسی بکھری، اچھا بتائیں چائے پیئں گی؟ میں نے پوچھا۔
ہاں ٹھیک ہے پی لیتے ہیں چلو آج آخری دن اس چائے کو یادگار بناتے ہیں میم نرگس نے مسکرا کر کہا، بےشک وہ میرے سامنے خود کو نارمل دکھا رہی تھی مگر اس کی آنکھوں میں پریشانی واضح نظر آر ہی تھی۔
میں نے چائے منگوائی اور پھر ہم دونوں نے ہلکی پھلکی گپ شپ کے ساتھ چائے کا لطف اٹھایا اس کے بعد چپڑاسی پیغام لے کر آیا کہ میم نرگس کو اکاؤنٹنٹ نے بلایا ہے پچھلا حساب کلیئر کرنے کے لیے۔ وہ اٹھی، مجھ سے گلے ملی، اللہ حافظ کہا، گھر آنے کی دعوت دی، اور چلی گئی میں جانتی تھی کہ آگے زندگی میں اس سے ملنا شائد ممکن نہ ہو پائے۔
عورت کے معاملات بھی کتنے عجیب ہیں ناں، کہنے کو ہر کام اس کے بنا ادھورا ہے مگر بہت ساری جگہوں پہ اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے میم نرگس ہمارے کالج میں بحیثیت لیکچرار ڈیڑھ سال پہلے تعینات ہوئی تھیں ان کی شادی کو تین سال ہو چکے تھے دو سال بعد خدا کی رحمت نازل ہوئی۔ ہمارے کالج میں آنے کے آٹھ ماہ بعد اولاد کے آنے کی انھیں خوشخبری ملی۔ لیکن چونکہ یہ ملازمت ان کی ضرورت تھی انکا گھر کرائے کا تھا اور وہ رہتی بھی مشترکہ خاندان میں تھیں تو ملازمت پہ آتی رہی کالج انتظامیہ نے ان سے کافی تعاون کیا پھر مقررہ وقت پہ وہ پچس دن کی چھٹیاں لینے کے ساتھ دوبارہ آنے کی تاریخ طے کر کے چلی گئی کہ جیسے ہی وہ کچھ بہتر ہوں گی کالج آ جائیں گی۔
مگر کالج انتظامیہ مطمئن نہیں تھیں انھیں لگتا تھا کہ شائد آنے والے وقت میں وہ ملازمت کی ذمےداریوں سے غفلت برت سکتی ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ بچے کے فرائض کو ترجیح دیں اور کام نظر انداز ہو جائے ایڈمن سٹاف کے تین سینئر ممبران کی رائے اور تجویز کے بعد میم نرگس کو ٹرمینیٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا جبکہ وہ خاتون ضروت مند تھی اور ملازمت کرنا چاہتی تھی مگر چونکہ یہ نجی ادارہ ہے اور حکام بالا کے حکم کے سامنے چوں چرا کرنے کا رواج نہیں اس لیے اس خاتون کو خاموشی سے گھر جانا پڑا۔
میں کتنی دیر سوچتی رہی کہ ملازمت کے ایسے معاملات مردوں کے ساتھ پیش نہیں آتے حالانکہ حکومتی سطح پہ خواتین کو بچے کی پیدائش پہ چھٹیاں دی جاتی ہیں اور ان چھٹیوں کی کٹوتی ان کی تنخواہ سے نہیں کی جاتی۔ مگر ہر جگہ یہ سہولت نہیں ملتی۔ نجی اداروں کے قواعد مختلف ہوتے ہیں کس نمائندے نے ادارے میں کتنی دیر ملازمت کرنی ہے اس کا فیصلہ حکام بالا کی صوابدید پہ منحصر ہے بسا اوقات معمولی سی بات پہ ملازمت ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اول تو خواتین کی ذمےداری گھریلو کام کاج کو سمجھا جاتا ہے چاہے وہ تعلیم یافتہ ہوں یا تعلیم سے نابلد، ان کا اولین فریضہ امور خانہ داری سے وابستہ ہی مانا جاتا ہے۔ اور مردوں پہ ایسی ذمےداریاں نہیں ہوتیں اس لیے ملازمت کے قاعدے ان کے مختلف ہوتے ہیں ان کی شادی ہو یا بچے، ان کی ملازمت کی مد میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن میرے اس نکتے سے اتفاق نہ کرنا ناانصافی ہو گی کہ ہمارے معاشرے کی بیشتر خواتین گھر اور ملازمت دونوں جگہ کی ذمےداریاں نہایت خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہیں شائد مردوں سے بھی زیادہ بہتر۔