Shahbaz Sharif Ka Itmenan
شہباز شریف کا اطمینان
نئے عام انتخابات میں قریب ڈیڑھ سال باقی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی صف بندی میں مصروف ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی کارکردگی کے بوجھ تلے دبی جارہی ہے۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔ اداروں کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا تاثر بھی بری طرح مجروح ہو چکا ہے۔ قرضوں کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود کے غیر متوقع اضافہ نے معاشی سرگرمیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے معاملہ پر حکومت کے ناپختہ رویے نے اس کے انداز حکومت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
لیکن اس کے باوجود ایک دن میں ریکارڈ قانون سازی کے ذریعے اقتدار کی پختگی کا تاثر دیا گیا۔ اقتدار کی راہداریوں میں حکومتی وزراء یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہمارا ایک پیج پر ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حکومتی قانون سازی بخیر و خوبی انجام پاگئے۔ لیکن ڈاکٹر عامر لیاقت کے ایک جملے نے ساری کہانی بیان کردی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ ویسا نہیں جیسا حکومت کہ رہی ہے۔ راقم کی ذاتی معلومات کے مطابق حکومت اور اداروں کے مابین تعلقات میں جو بال آیا ہے وہ وہیں پر برقرار ہے۔
مسلم لیگ نون نے کمال کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ میاں نواز شریف کے تند و تیز بیانات نے شہباز شریف کی مصالحانہ حکمت عملی کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔ پاکستان کی سیاست پر انتہائی گہری نگاہ رکھنے والے میاں نواز شریف نے یہ بھانپ لیا ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والا بندوبست زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامیوں، نااہلیوں، ناکارہ کارکردگی، معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اب اداروں پر براہ راست انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور ادارے یہ بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے۔
میاں نواز شریف نے بڑی مہارت سے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پاکستان پیپلز پارٹی کی متوقع سیاسی پیش رفت کے آگے بند باندھ دیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف میاں شہباز شریف اپنے طرز سیاست کی بدولت مقتدر حلقوں میں مقبول و محبوب بن چکے ہیں۔ آپ ترجیحات کی تبدیلی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے استعفوں، لانگ مارچ احتجاجی جلوسوں، پہیہ جام کرنے اور شٹرڈاون جیسی مزاحمتی باتیں دور دور تک سنائی نہیں دیتی۔ نوازشریف کی مزاحمت، جو محض بیانات تک ہی محدود تھی اس کے ذریعے انہوں نے اپنے سیاسی مقاصدکسی حد تک حاصل کر لیے ہیں۔ اور یہی چیزیں مسلم لیگی قائدین کے اطمینان کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کے دوران میاں شہباز شریف کا اعتماد اور اطمینان اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ معاملات جس طرح نظر آرہے ہیں ویسے نہیں ہیں۔ میں میاں شہباز شریف کو ایک عرصے سے جانتا ہوں۔ مجھے اندازہ ہے ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں شکست کے باوجود ان کا یہ اطمینان، مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک بلا وجہ نہیں۔۔ میاں شہباز شریف نے سیاسی تعاون کے تمام آپشن کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری، جناب آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ ان کی خوش گپیاں، گجرات کے چوہدری صاحبان سے روابط نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔
اس تناظر میں میاں حمزہ شہباز کا جناب چودھری شجاعت حسین کی عیادت کے لیے جانا، نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف کا چوہدری پرویز الہی کو فون کرنا یقینا غیر معمولی بات ہے۔ اب میاں شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی کو وسیع تر ملکی اور جماعتی مفاد کی خاطر اپنے اپنے موقف میں نرمی لاتے ہوے درمیانی راستہ نکالنا ہوگا۔ گجرات کے چوہدری اپنی وضع داری، روائتی شرم و حیا کے پورے ملک میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
ماضی میں اسحاق ڈار نے گجرات اور راے ونڈ کو نزدیک کر دیا تھا لیکن یہ بات چیت منزل مقصود تک نہ پہنچ سکی۔ جس کے باعث باہمی اعتماد کا فقدان مزید بڑھ گیا۔ اب پرویز الہی اور شہباز شریف کو سمجھنا ہوگا کہ مسلم لیگ کا اتحاد ہی اسے حیات نو بخش سکتا ہے ان کے اتحاد کے سبب متحدہ مسلم لیگ ملک کی طاقتور ترین جماعت بن سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائدین کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ اب وہ اکیلے انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔
میاں نواز شریف کے مزاحمتی بیانیہ نے سیاسی دباؤ بڑھا کر جناب شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کے تند و تیز بیانات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی دباؤ کی بدولت میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات بہتر انداز میں طے کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ کبھی تو یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون کا فارمولا ہی مفاہمت براستہ مزاحمت ہے۔ یعنی مزاحمت کے راستے پر چلتے ہوئے مفاہمت کی منزل طے کی جائے۔ اسی فارمولے پر چلتے ہوئے شہباز شریف، حمزہ شہباز ڈائیلاگ کے ذریعے سیاسی فصل کاٹنے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔
نواز شریف اور شہباز شریف اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اگر 2023کے عام انتخابات میں وہ اقتدار میں شراکت حاصل نہ کر سکے تو پھر حمزہ شہباز اور مریم نواز کو طویل انتظار اور جدوجہد کے راستے سے گزرنا پڑے گا۔ لیکن دوسری طرف ایک یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ شریف فیملی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وہ مسلسل عمران خان کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔۔ الیکشن کے آخری سالوں میں بہتر کارکردگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ موجودہ حالات میں کوئی نوزائیدہ جماعت یا نومولود بندوبست ملک کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
عمران خان اس دور حکومت میں کافی چیزوں سے آگاہی حاصل کر چکے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ ہے یہی چاہتا ہے کہ نیا تجربہ کرنے کے بجائے اسی گھوڑے کو توانا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو بیرون ملک 90 لاکھ پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا تو دوسری طرف تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ تحریک انصاف کا اتحاد ممکن بنایا جا رہا ہے جس سے سنی بریلوی ووٹ کا ایک بڑا حصہ تحریک انصاف کی طرف چلا جاے گا۔ لبیک اور پی ٹی آئی کا اتحاد مسلم لیگ ن کیلے سب سے بڑا سیاسی خطرہ بن سکتا ہے۔
عمران خان کو بھی اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے چاہیے کہ مسلم لیگ نون کو نئی زندگی تحریک انصاف کی بدترین کارکردگی نے عطا کی ہے۔ لیکن اگر عمران خان اسی روش پر قائم رہے، اپوزیشن جماعتوں کیلئے ڈائیلاگ کا دروازہ نہ کھولا، مارو اور ماردو کی پالیسی تبدیل نہ کی، نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے مطلوبہ نتائج کی کوشش میں سرگرداں رہے تو پھر سیاسی میدان میں ان کی جگہ نہیں ہوگی۔ البتہ تاریخ کے صفحات پر تو وہ موجود ہی رہیں گے۔
دعاء صحتِ: پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور ملک کے سینئر سیاستدان چوہدری شجاعت حسین علیل ہیں۔ بلا شبہ وہ ملکی سیاست میں تحمل برداشت اور وضع داری کا استعارہ ہیں۔ قاریئن سے دعا کی التماس ہے اللہ کریم انہیں جلد صحت کاملہ عطا فرمائے۔