Saneha APS (2)
سانحہ اے پی ایس (2)
دہشت گردی کے خلاف اس کامیاب جنگ میں 46000مربع کلو میٹر کا ایریا کلئیر کیا گیا، 18000سے زائد دہشت گرد مارے گئے، 250ٹن سے زائد بارودقبضے میں لیا گیا، 75000اسلحہ ریکور کیا گیا کہ جولاکھوں جانوں کے نقصان کا باعث ہو سکتا تھا۔ 50بڑے آپریشن جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائدIBOsکئے گئے اور1200سے زائد چھوٹے اور بڑے آپریشن کئے گئے۔ لیکن بارڈر کی دوسری جانب حالات مختلف تھے۔ پاکستان نے جہاں 2611کلو میٹر بارڈر فینسنگ کا بیڑہ اُٹھایا، بارڈر فورٹس اور ٹرمینل قائم کیے۔ دوسری جانب بارڈر پر7سے8کلو میٹر تک صرف ایک پوسٹ موجود تھی۔ لیکن پاکستان کے بروقت اقدامات کے باعث افغانستان کے اندر کے حالات و واقعات کے اثرات سے پاکستان محفوظ رہا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چاروں صوبوں کی پولیس نے بے مثال قربانیاں دی۔ سانحہ اے پی ایس کے کے بعدنیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں پولیس نے کاروائیاں کیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پولیس نے پہلی حفاظتی دیوار ہونے کا حق ادا کیا۔ محتاط اعدادوشمار کے مطابق اب تک 70ہزار سے زائد پاکستانی دہشت گردی کی جنگ میں اپنی جان ملک کے لئے قربان کر چکے ہیں۔ مستند اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پختواہ میں اب تک پولیس کے1655سے زائد افسرا ن اور جوان اپنی جانوں کے نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پنجاب پولیس نے 1495سے زائد قربانیاں دی ہیں، جبکہ لاہور پولیس کے شہید ہونے والے افسران اور جوانوں کی تعداد 314 کے قریب ہے۔
لاہور پولیس کے افسران اور جوانوں نے ملک و قوم اور عوام کی جان و مال کی حفاظت میں تاریخ ساز قربانیاں پیش کیں۔ ڈی آئی جی کیپٹن(ر) احمد مبین، ایس ایس پی زاہد محمود گوندل اور لاہور پولیس کے سینکڑوں جوان شہید ہوئے۔ پولیس کے ایک ڈی آئی جی، ایک ایس ایس پی، ایک ایس پی، 4ڈی ایس پی رینک کے اعلیٰ افسران جبکہ06انسپکٹرز، 34سب انسپکٹرز، 28اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، 30ہیڈکانسٹیبل، 208کانسٹیبل اور 01ٹریفک وارڈن فرض کی راہ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
کیاAPSشہدا کی دادرسی کی گئی؟ سوال تو یہ ہونا چاہیے۔ تحقیق سے پتا چلا کہ جی ہاں دادرسی کی گئی۔ اگرچہ کوئی بھی مالی فائدہ کسی جان کا مداوا نہیں کر سکتا ،لیکن پھر بھی حتی الوسع کوشش کی گئی کہ لواحقین کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ ان کو نہ صرف پلاٹس دئیے گئے بلکہ نقد رقوم بھی دی گئیں۔ متاثرین اور ورثاء کے لیے تاحیات علاج معالجے کی سہولت، بچوں کی مفت تعلیم و تربیت کے علاوہ اللہ کے گھر کا طواف کا بندوبست بھی کیا گیا۔ مجموعی طور پر وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پاک فوج کی جانب سے ابتک 1545ملین روپے سے زائد رقم شہدا کے لواحقین اور متاثرین کی دادرسی کیلئے خرچ کی جا چکی ہے۔ آج بھی ریاست اُن کی ہرممکن دادرسی کیلئے تیار ہے۔ وزیراعظم سے لے کر آرمی چیف تک تمام لوگ دل و جان سے ان کے دُکھ کا مداوہ کرنا چاہتے ہیں۔
APSواقعے میں 9دہشت گرد تو موقعہ پر ہلاک ہو گئے تھے اور جن6 کو گرفتار کیا گیا، ان میں سے5کو پھانسی دی جا چکی ہے،جبکہ ایک کا کیس سُپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔عسکری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی علماء، اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ مولانا فضل الرحمن پر کئی دفعہ قاتلانہ حملہ ہوا، جامعہ نعیمیہ کے سربراہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی اسی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھے، مفتی نظام الدین شا مزئی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی و عسکری اداروں اور عام شہریوں نے مل کر شہدا ءاے پی ایس کے خون کا بدلہ لیا ,اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
9/11کے بعد پاکستان پر مسلط کی گئی جنگ کا آخری وقت قریب آ چکا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پہلی مرتبہ اچھے طالبان اور برے طالبان کی تفریق کا خاتمہ ہوا۔ تمام دہشت گردوں کو ایک ہی نظر سے دیکھنے کا فیصلہ ہوا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کے اندر عسکری اداروں کے آپریشن کے ساتھ ساتھ کئی دیگر امور پر بھی توجہ دی گئی۔ ملک بھر سے انتہا پسندی کے فروغ کوروکنے کے عملی اقدامات کئے گئے۔ نیشنل ایکشن پلان اتنا ہمہ جہت تھا کہ جس سے مذہبی منافرت پھیلنے کا خدشہ تھا۔ سانحہ APSکے بعد تمام مذہبی طبقات کو ایک خاص دائرے میں محدودکیا گیا اور ان کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کئے گئے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ 30سے زائد نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان کے محض ایک فیصد ر دِعمل ہوا ،اور کچھ عرصہ کے بعد حالت یہ ہو گئی ،کہ اس پلان کا سارا زور جمعہ کی خطبات اور لاؤڈ سپیکر کے استعمال تک محدود ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد باسی کڑھی میں ابال آتا تو دینی مدارس کی شامت آجاتی۔ ان کی تلاشی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ آج اس سانحہ کو 5 سال ہونے کو ہیں، لیکن فکری طور پر حالت جوں کی توں ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تمام تعلیمی اداروں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار بہتر بنانے پر توجہ دینے کے ساتھ دینی تعلیمی اداروں کو بھی اپناادارہ سمجھنا ہو گا۔
ہماری قوم جس فکری بحران کا شکار ہے اس کا واحدحل علم کے تمام شعبوں میں مہارت حاصل کرنا ہے۔ اے پی ایس کے بچوں کی شہادت نے جس طرح قوم کو سیاسی طور پر ایک محاذ پر اکٹھا کیا، اسی طرح فکری طور پر بھی پوری قوم کو یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرناہوں گی ،تاکہ کوئی طالع آزما ہماری فکری بنیادوں کو نہ ہلا سکے۔ اپنے تعلیمی نصاب میں ایسی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ،جو ہماری درسی کتب کو ایک طرف تو جدید تقاضوں کے ہم آہنگ کرے، دوسری طرف اسلام اور پاکستان کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کرے۔ سانحہ اے پی ایس کے پانچ سال گذر نے کے بعد بھی ہم فکری جمود کا شکار ہیں۔حکومتوں کے نمائشی اقدامات سے ہمارے معاشرتی نظام پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
ہمارا نوجوان آج بھی علمی بے راہ روی کا شکار ہے، اور تمام قسم کے آوارہ نظریات کے لئے تر نوالہ ثابت ہوتا ہے۔اس جمود کو توڑنے کے لئے ایک مرتبہ پھر تمام مذہبی و سیاسی قوتوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا،جس طرح پانچ سال قبل جنگی بنیادوں پر قوم کو اکٹھا کیا گیا تھا،او ردہشتگردی کے خلاف ایک فضا پیدا کر دی گئی تھی، اب بھی فکری دہشت گردی کے خلاف ایک منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے اس وقت ہماری سیاسی قیادت افکار سے عاری اور شعور سے بے بہرہ ہے۔ گالی گلوچ ان کا وطیرہ ہے اور الزام تراشیان کی عادت ہے۔ کارکردگی ان کی صفر ہے اور زبان درازی عروج پر ہے۔ ان حالات میں علماء، دانشور حضرات، صحافیوں اور سول سائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ قوم کے نونہالوں کو فکری بے راہ روی اور ذہنی انتشار سے محفوظ رکھا جا سکے۔