Saneha APS (1)
سانحہ اے پی ایس (1)
جوانوں کے کندھوں پر بزرگوں کے جنازے اٹھتے ہیں تو کسی کو عجیب نہیں لگتا کہ یہی دستور زمانہ ہے۔ جب ملک حالت جنگ میں ہو تو بزرگوں کے کندھوں پر کڑیل جوانوں کے جنازے قبرستان کی طرف سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ تب بھی اسکوغیر معمولی خیال نہیں کیا جاتا کہ جنگوں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے ۔لیکن جب بوڑھوں اور جوانوں کے کندھوں پر معصوم بچوں کے جنازے ہوں، اس کیفیت کو کیا نام دیا جاے، تاریخ اس پر خاموش ہے۔
معلوم تاریخ میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ بد ترین جنگی حالات میں بھی معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جائے لیکن پاکستانی قوم نے وہ وقت بھی دیکھا ،جب معصوم پھولوں جیسے بچوں کے جنازے قطار اندر قطار پڑے تھے۔ یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ گلاب بچوں پر ڈالے گئے ہیں یا بچے گلابوں کی زینت بنائے گئے ہیں۔سانحہ اے پی ایس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس درد کی ٹیسیں دنیا بھر میں محسوس کی گئی تھیں۔
16دسمبر2014کا دن معمول کے مطابق طلوع ہوا تھا۔ سینکڑوں بچے اپنی ماؤں سے مل کر، بستے اپنے کندھوں پر ڈالے ،خوشی خوشی سکول کی طرف رواں دواں تھے اور کسی کو یہ احساس تک بھی نہیں تھا کہ کتنا دلخراش سانحہ ان کا انتظار کر رہا ہے۔ ان بچوں میں خولہ نامی ایک معصوم بچی بھی شامل تھی ،جس کا آج سکو ل میں پہلا دن تھا۔ خولہ کئی دنوں سے والدین سے ضد کر رہی تھی کہ اس کو بھی اپنے بھائی کے ہمراہ سکول جانا ہے۔ آج اس کا پہلا دن ہی اس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ یہ شائد پاکستان کی سب سے کم عمر شہید ہے جس نے دہشت گردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ شہدائےAPS میں فہدنام کا ایک دلیر بچہ بھی شامل تھا۔
دہشت گردوں کے حملہ کے وقت اس نے نہ صرف اپنے حواس بحال رکھے بلکہ کلاس روم کا عقبی دروازہ کھول کر اپنے ہم جماعتوں کی جان بچائی اور خود شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہو گیا۔ ہم سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کی شجاعت کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں ،جنہوں نے خون کے پیاسوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ،کہ بچوں کو کیوں مار تے ہو مجھ سے بات کرو میں ان کی ماں ہوں، ان کے دلیرانہ اقدامات کو قوم کیسے بھلا سکتی ہے۔ 144شہادتوں میں سے محض ایک یا دو شہدا کا تذکرہ محض نمونہ کے طور پر کیا ہے ورنہ 144گھرانوں پر جو قیامت ٹوٹی اس قیامت کی الگ الگ کہانی ہے جو شائد ہی کبھی ذہنوں سے محو ہو سکے۔
16دسمبر کا دن ویسے بھی پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا خوشگوار دن نہیں رہا۔ اس دن اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی نالائقیوں کے باعث مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا ،لیکن ان دہشت گردوں نے خاص طور پر اس کے لئے اسی دن کا انتخاب کیا ،کہ جو قوم پہلے ہی جدائی کے زخموں سے چور ہے اس پر ایک اور کچوکا لگ جائے۔ اس سانحہ عظیم کو گزرے قریب 5سال ہونے کو ہیں ،لیکن اس کا کرب آج بھی ویسے ہی محسوس کیا جارہا ہے جو پہلے دن تھا۔ پشاور کے قلب میں واقع آرمی پبلک سکول کے چمن زار میں بکھری معصوم بچوں کی لاشیں، تڑپتے والدین، روتے ہوئے رشتہ دار اور غم و اندوہ میں مبتلا پوری قوم آج بھی اس درد کو محسوس کر رہی ہے۔
ا س سانحہ کا ایک اور المناک پہلو یہ ہے کہ یہ حملہ ایک تعلیمی ادرے پر کیا گیا۔ بد ترین جنگوں میں بھی مذہبی عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں پر حملوں سے گریز کیا جاتا ہے، لیکن اس سانحہ عظیم کے لئے ایک تعلیمی ادارے کا انتخا ب کیا گیا۔ سانحہ APSکے کچھ عرصہ بعد باجوڑ کے ایک دینی مدرسہ پر بھی حملہ کیا گیا تھا اور سینکڑوں بچوں کو لقمہ اجل بنا دیا گیا تھا۔ تعلیمی اداروں پر حملہ انسانیت سوز مظالم میں سے ایک ایسا ظلم ہے، جو دنیا کے کسی مذہب یا معاشرے میں قابل قبول نہیں۔ 16دسمبر2014میں جب یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا تو اس وقت ملک کے سیاسی افق پر ایک خاص قسم کی بے چینی پیدا ی گئی تھی۔
مسلم لیگ ن کو حکومت سنبھالے محض ایک سال کا عرصہ ہو اتھا۔ جہاں ایک طرف تو تعمیر و ترقی کے کئی منصوبے شروع ہونے جارہے تھے،تو دوسر ی طرف غیر ملکی سرمایہ کاری کی بھی آمد آمد تھی۔ لیکن اس دوران عمران خان کی طر ف سے حکومت کے خلاف دھرنا اور احتجاج شروع کر دیا گیا ،ساتھ ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن روپذیر ہوا۔ جس سے پورے ملک میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پائے جانے والے شدید تناؤ کے باوجود ،تمام مصروفیات کو ترک کر کے پشاور تشریف لے گئے۔ ایک طرف زخمیوں کی عیادت کی، دوسری طرف ریاستی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔
اس وقت کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے، اپنی تمام سیاسی مخالفتوں کو پس پشت ڈال کر ،حکومت اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ اس سانحہ کے بعد حکومت کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف کے شدید ناقدین، جن میں مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری، جمیعت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن، تحریک انصاف کے عمران خان سمیت تمام سیاسی قوتیں ایک میز پر اکٹھی ہو گئیں۔
دوسری طرف پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام مذہبی قوتیں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئیں۔ تمام بڑے دینی مدارس جن میں دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف ،جس کے سربراہ پیر محمد امین الحسنات شاہ، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ڈاکٹر ابوالحسن محمد شاہ الازہری، دارالعلوم کراچی کے مفتی رفیع عثمانی اور مولانا مفتی تقی عثمانی، ادارہ منہاج القرآن کے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری، وفاق المدارس کے مولانا حنیف جالندھری، تنظیم المدارس اہلسنت کے مفتی منیب الرحمٰن، وفاق المدارس شیعہ اور وفاق المدارس سلفیہ کے سربراہان سمیت تمام چھوٹے اور بڑے ادارے حکومت کی پشت پر کھڑے ہو گئے۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے آگے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف ،کئی جلدوں پر مشتمل ایک مربوط اور مبسوط فتویٰ جاری کیا،جس کوملکی او ربین الاقوامی سطح پر خوب سراہا گیا۔ ان کے اس فتویٰ کی بدولت مذہبی طبقہ کو دہشت گرد عناصر سے دوری اختیار کرنے میں مدد ملی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی حکمت سے عاری تقریروں، بلاجواز الزامات اور فکر و تدبر سے عاری حکمت عملی کی وجہ سے سیاسی ماحول پراگندہ تھا۔ عمران خان کنٹینر پرکھڑے ہو کر روزانہ شرفا کی پگڑیاں ا چھالتے تھے، جس کے باعث کوئی شریف آدمی یا معزز سیاستدان ان سے بات کرنے کا روادار نہ تھا۔ تاہم میاں نواز شریف کی وسیع الظرفی اور سیاسی تدبر کی بدولت وہ بھی اس مشترکہ پلیٹ فارم پر آن بیٹھے۔
حکومت اور سیاسی قوتوں کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں نے بھی اس شروع ہونے والی جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ،پاک فوج کے اعلیٰ افسران سے لے کر عام سپاہیوں تک ،پولیس کے ایڈیشنل آئی جی سطح کے افسران سے لے کر کانسٹیبل تک، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہر سطح کے افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کیا۔اس کیلئے قوم اور افواجِ پاکستان نے ایک کامیاب جنگ لڑی ہے۔ اے پی ایس واقعے کے بعد پیش آنے والے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ زند ہ قومیں چیلنجز سے سر خرو ہو کر اُبھرتی ہیں۔