Online Ehtejaji Tehreek
آن لائن احتجاجی تحریک
اِن دنوں پاکستانی سیاست کی باسی کڑھی میں پھر سے ابال آیا ہوا ہے۔ دن رات ملاقاتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے بزرگ رہنماؤں نے قیادت بچوں سے لیکر اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ نواز شریف اور زرداری طرزِ سیاست کی باتیں پھر سے سنائی دے رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے والے باہم شیر و شکر ہو رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف، ظہور الٰہی پیلس کی یاترا کر چکے ہیں جبکہ چوہدری پرویز الٰہی سیاسی کھچڑی کیلئے سامان اکٹھا کرنے کا مبہم سا اشارہ بھی دے چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کا وفد بھی لاہور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔
پی ڈی ایم کے تنِ مردہ میں بھی زندگی کے آثار دکھائی دیے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے بھی حسبِ سابق تمام فیصلوں کا اختیار ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کو دے دیاہے۔ لندن میں علاج کی غرض سے مقیم، پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد بھی احتجاجی تحریک کی بجائے تحریک عدم اعتماد کی طرف راغب ہوتے نظر آتے ہیں۔ اپوزیشن کی بےدلی سے جاری سرگرمیاں دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کورونا نے اُن کی طبیعتوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ کورونا کے دوران جس طرح ساری دنیا کا نظام برقی لہروں پر منتقل ہوا شاید اپوزیشن کا احتجاج بھی اب گلیوں اور سڑکوں کے بجائے انٹرنیٹ پر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
خوشی کے جذبات کا اظہار بھی ٹویٹر پر ہوتا ہے اور مزاحمتی بیانیہ بھی ٹویٹر سے ہی جاری ہوتا ہے۔ تمام تر سیاسی درجہ حرارت سوشل میڈیا کا مرہونِ منت ہے جبکہ حکومت کے لیے گلیاں سونی چھوڑ دی گئی ہیں، جن میں مرزا یار اکیلا پھر رہا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اپوزیشن کی بجائے حکومت جلسے کرنے پر اتر آئی ہے، جس اپوزیشن نے میدانِ سیاست گرم کرنا تھا وہ ڈرائنگ روم میں بند ہے اور جس حکومت نے دفتر میں بیٹھ کر حکومت کرنا تھی وہ جلسوں کے میدان سجا رہی ہے۔
اگر اپوزیشن حکومت کو گرانے میں سنجیدہ ہو تو اعداد و شمار کا کھیل انتہائی سادہ ہے۔ سینیٹ کے 100میں سے حکومت کے پاس 47اراکین ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس 53۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے دلاور خان گروپ کے چھ سینٹرز ہمیشہ اپنی مرضی کرتے ہیں اور مسلم لیگ ن کی قیادت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اگر اپوزیشن اپنے عمل میں سنجیدہ ہوتی تو چیئرمین سینیٹ ہٹانا اس کےبائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ قومی اسمبلی کا جائزہ لیں تو 172کے مقابلے، حکومت کے پاس 182اراکین ہیں۔
محض 11اراکین کی مدد سے وفاقی حکومت گرائی جا سکتی ہے اور یہ کام ایم کیو ایم اور قاف لیگ کی مدد سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں قاف لیگ کے 10 اراکین اور راہِ حق پارٹی کا ایک رکن مل کر بزدار حکومت کا خاتمہ کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے جس یکسوئی کی ضرورت ہے۔ موجودہ اپوزیشن اس سے محروم ہے۔ اس کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جب حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا وقت آتا ہے تو قومی اسمبلی سے ن لیگ کے سربراہ اور قائدِ حزب اختلاف غائب ہوجاتے ہیں اور سینیٹ سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قائدِ حزب اختلاف، حکومت کو واک اوور دے دیتے ہیں۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کو گرانے میں سنجیدہ نہیں۔ اگلے روز پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد، میڈیا ٹاک نے اپوزیشن کی حکمت ِعملی کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ ترجمانی کا سارا بوجھ مولانا فضل الرحمٰن کے کندھے پر ڈال دیا گیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد مولانا کا مرہونِ منت ہے۔ افرادی قوت کی فراہمی سے لیکر صحافیوں کے کڑوے کسیلے سوالات کے جوابات دینے تک، مولانا نے ہی پی ڈی ایم کا بھرم رکھا ورنہ دیگر قائدین کا حال تو سبھی کے سامنے ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران بار بار متبادل حکمت ِعملی کے متعلق سوال کیا گیا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرکے رہ گئے۔
دوسری طرف حکومت بھی اپنی جگ ہنسائی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی، عوام مہنگائی کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں، بجلی کی قیمت میں 3روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کھاد کے بحران نے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے، شوگر بحران ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہا ہے، کاروبارِ حکومت منجمد ہے، افسر شاہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، اِن حالات میں وزیراعظم کو کیا سوجھی کہ انہوں نے وزیروں میں اسناد تقسیم کرکے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا؟ سیاسی رہنماؤں کی اِس طرح کی ناپختہ حرکتوں سے یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ ملک قیادت کے بحران کا شکار ہے۔
حکومت ویژن سے عاری جبکہ اپوزیشن حکمت سے خالی ہے۔ حکومت نے تجربہ کار سیاسی رہنماؤں کو مشاورت کے دائرے سے خارج کر رکھا ہے تو اپوزیشن جماعتوں نے بھی مخلص، آزمودہ کار اور دلیر رہنماؤں سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ بلاول اور مریم اپنے اپنے بزرگوں کی پالیسیوں کے اسیر ہیں۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ملک ایک بےسمت گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑ رہا ہے اور حکومت کا "نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا رکاب میں "۔
اِن حالات میں اول تو حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا پیش کیا جانا ہی مشکل ہے اور اگر پیش ہو بھی گئی تو اس کی کامیابی ناممکن نظر آتی ہے لیکن اِس ساری کشمکش سے بہت دور بیٹھے ہوئے فیصلہ سازوں کے ہاں یہ سوال سرے سے موضوعِ بحث ہی نہیں ہے کہ اپوزیشن کا برقی احتجاج کیا رنگ لائے گا یا عمران حکومت کی بیڈ گورننس کا کیا انجام ہوگا؟ اگر کوئی معاملہ زیرِ بحث ہے تو یہ کہ مسلح افواج کا آئندہ سربراہ کون ہوگا؟ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ اسی فیصلے سے جڑا ہوا ہے۔