1.  Home
  2. Blog
  3. Farooq Bahaul Haq
  4. Maholiyati Tabdeeliyan Aur National Security

Maholiyati Tabdeeliyan Aur National Security

ماحولیاتی تبدیلیاں اور نیشنل سکیورٹی

کچھ سال پہلے تک جب دنیا کو ایک عالمی گاؤں سے تشبیہ دی جاتی تھی تو یہ ایک محاورہ کی بات سمجھی جاتی تھی۔ یہ کب تصور کیا جا سکتا تھا کہ دنیا کے ایک دور دراز ملک برازیل میں موجود دنیا کا سب سے بڑا جنگل ایمازون جوپوری انسانیت کو آکسیجن کی فراہمی کاسب سے بڑا زریعہ تھا اسکی کٹائی سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ کرونا نے اس خیال کو مزید تقویت دی ہے۔ پاکستان سے زیادہ اس حقیقت سے کون آگاہ ہے۔ بھارت میں گنے کی فصل کی باقیات کو آگ لگتی ہے تو پورے لاہور میں ناقابل بیان سموگ چھاجاتی ہے۔ ہمسایوں کی ماحولیاتی دشمنی کی وجہ سے آج لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں شامل ہوچکا ہے۔ انٹراکٹکا کے گلیشیر پگھلنے سے پوری دنیا فکر مند ہے۔حال ہی میں جنوبی جرمنی، اٹلی، سپن اور چین میں ہونے والی تباہ کن بارشوں نے غور وفکر کی نئی راہ جھولی ہے۔ کویت میں شدید گرمی کے باعث گاڑیوں کی ونڈ سکرین پگھلنے کے مناظر کویتی ٹی پر پوری دنیا نے دیکھے۔ پاکستان کی سالٹ رینج میں چوآسیدن شاہ اور کلرکہار کے درمیان لگائی جانے والی فیکٹریوں نے ماحولیاتی آلودگی میں مقدور بھر حصہ ڈالا ہے۔ محکمہ جنگلات کی غفلت اور عدم دلچسپی کے باعث جنگلات کی کٹائی بیدردی سے جاری ہے۔ سمندر اور دریاؤں میں موجود مچھلیوں کا وحشیانہ انداز میں شکار کیا جا رہا ہے۔ فضا میں اڑنے والے پرندوں کے شکار کی کوئی حد متعین نہیں۔ باغات میں پرورش پانے والے پرندے، زمین کی سطح پر دوڑنے والے کیڑے مکوڑے، درختوں کی کوکھ میں گھر بنا کر رہنے والے معصوم جانور، یہ سب قدرتی ماحول تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے عالمی ماحول کے بگاڑ میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہےلیکن اس کے باوجود پاکستان ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلی کے شکار ہونے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کی کارکردگی یوں تو ہر میدان میں محل نظر ہے۔ خصوصا مہنگائی اور امن و امان کی حالت ازیت ناک ہے۔ حالات یہ ہیں کہ حکومت کی ناک کے عین نیچے وفاقی دارالحکومت میں ایک سابق سفارتکار کی بیٹی کا بیہمانہ قتل کردیا جاتا ہے اور وزیر داخلہ اپنے بھاری جسم و جاں کے ساتھ گھوڑ سواری کا شوق فرما رہے ہوتے ہیں۔ تحصیل بھیرہ ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں ودھن میں 6ماہ کے مختصر عرصہ میں 17افراد قتل ہوچکے ہیں۔ تحصیل صدر مقام بھلوال میں سرعام بھتہ لیا جارہا ہے اور تاجر لٹ رہے ہیں یا قتل ہورہے ہیں۔ لیکن آئی جی پنجاب خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ان تمام حالات کے باوجود ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کیلے حکومتی اقدامات کی تحسین ہونی چاہیے۔ خصوصا حکومت کی آگاہی مہم قابل زکر ہے۔ اگر عوامی شعور کی بیداری میں کامیابی ہوگی تو اس کا فائدہ کئی نسلوں تک محیط ہوگا۔ شکوہ ظلت شب کے بجاے اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔ ملک کے تمام اداروں کو متحرک ہونا ہوگا۔ خصوصا مسلح افواج جسکے سربراہ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ سماجی مسائل کے متعلق فکر مند رہتے ہیں، جو مردم شماری، سیلاب اور قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے سمیت قومی نوعیت کے ہر معاملے پر حکومت کی مدد کرتا ہے، اس ادارہ کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہے۔ موسمیاتی تبدیلی اب نیشنل سیکیورٹی کی صورتحال اختیار کر چکی ہیاس لیے سیکورٹی اداروں کے اس عمل میں شمولیت سے اس کی اہمیت مزید واضح ہوگی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کا کہنا ہے کہ انسانوں کی فطرت کے ساتھ جنگ سے زمین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ ان کے اس جملے تائید ان حقائق سے ہوتی ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ صنعتی ترقی کے مقابلے میں سن 2100 میں درجہ حرارت تین ڈگری سیلسیئس بڑھ جائے گا۔ اس دوران عبوری مدت کے لیے نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں معمولی سی کمی ضرور دیکھی گئی۔ پیرس کلائمیٹ ڈیل میں یہ طے پایا تھا کہ اقوام متحدہ اپنی کوششوں سے سن 2030 تک پینتالیس فیصد منفی گیسوں کے اخراج میں کمی لائیں گی۔ لیکن امریکہ جیسے طاقتور ملک کے اس معاہدے سے نکل جانے کے بعد غریب ممالک یہ بوجھ برداشت نہیں کرپائیں گے۔ اور اقوام متحدہ کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے رواں برس کو انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے کیونکہ اسی سال نومبر میں برطانوی شہر گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس (COP 21) کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ آئی پی سی سی کے طے کردہ معیار کے مطابق 25 فیصد زمین پر جنگلات موجود ہونے چاہیں جبکہ ماہرین کے مطابق پاکستان میں جنگل کیلے استعمال ہونے والی زمین، ملک کے کل رقبے کا صرف 5.7 ہے یعنی 4.54 ملین ہیکٹر زمین پر جنگلات موجود ہیں۔ اس لیے حکومت مزید جنگلات اگانے میں سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔ حکومت سندھ نے بھی ساحلی علاقوں میں ایک ارب مین گروو درخت لگا کر قابل قدر کام کیاہے۔ ملک کی موجودہ ماحولیاتی حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ بات بھی کہنے دیں کہ اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا برابر کا حصہ ہے اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمیعت علما اسلام اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے اپنے اپنے ادوار میں ان معاملات کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ان جماعتوں کو سیاست کے علاؤہ اس مثبت کام میں آگے انا چاہے۔ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ان دنوں کشمیر الیکشن میں نبرد آزما ہیں۔ لیکن کوئی مقرر، کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی موجودہ حالت پر بات نہیں کر رہا۔ اس پر سیاسی قائدین کو زمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم کی تقاریر میں بھی جذباتی پن غالب رہا۔ تمام راہنماؤں نے مسئلہ کشمیر کے علاؤہ ہر موضوع پر بات کی۔

کشمیر الیکشن کے موقع پر مسلم لیگ ن کی دھڑے بندی بھی واضح ہوگی ہے۔ میاں نواز شریف ضلعی سطح تک براہ راست ھدایات دے رہے ہیں۔ جبکہ میاں شہباز شریف، اور حمزہ شہباز کو لاتعلق کردیا گیا ہے۔ کشمیر الیکشن مہم کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کو ٹی وی چینلز پر برابر کوریج دی گئی جس سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ ادارے غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ البتہ مسلم لیگ کے جلسوں سے سلیکٹڈ کی تکرار کم نہ ہوئی۔ ان حالات میں کشمیر کے دونوں حصوں کے عوام ان سیاسی جماعتوں کے رویوں سے ازحد مایوس ہیں۔ مودی حکومت کے جارحانہ اقدامات اور حکومت پاکستان کے محض نمائشی بیان بازی کے باعث کشمیریوں کے اندر سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ سرحد پر مسلح افواج کے سپاہی اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ موجودہ انتخابات کشمیری نوجوانوں کی سوچ کا تعین کریں گے۔ ان کے اندر پکنے والے لاوے کو اگر راہ نہ ملی تو یہ پھٹ سکتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا ؟ اس پر کسی اور کالم میں بات کریں گے۔

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari