Iqtidar Ki Jang
اقتدار کی جنگ
پاکستان کے سیاسی اُفق پر چھائی ہوئی دھند اور غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے خوشگوار خبریں منظر عام پر آنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی ہیں۔ ذاتی و سیاسی الزامات کی ایسی دھما چوکڑی مچی ہے کے ہاتھوں کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ اخلاقیات کا تو جنازہ ہی نکل گیا ہے۔ قد اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ایسی نازیبا زبان استعمال کی جا رہی ہے کہ کوئی شریف آدمی اپنے گھر میں بیٹھ کر وہ الفاظ سماعت نہیں کر سکتا۔ یہ کیسے دن آگئے ہیں کہ گالم گلوج سیاسی کلچر کا حصہ بن کے رہ گیا ہے۔
اعلیٰ ترین مناصب پر فائز لوگ ڈھنگ سے بات کہنے کا ہنر ہی بھول گئے ہیں۔ ان ایام میں نوحہ کریں تو کس کا کریں، ان مٹتء اقتدار کا ماتم کریں جو کبھی ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہوا کرتی تھی، یا ان روایات کے انہدام پر کف افسوس ملیں جن کی دھجیاں سرعام جلسوں میں اڑائی جا رہی ہیں، ایک دوسرے کو برداشت کرنا تو دور کی بات ہے، حکومت اور اپوزیشن کے مابین مل کر بیٹھنا بھی ناممکن ہو گیا ہے، اس طرح کے پراگندہ ماحول میں کوئی سیاست پر بات کرے تو کیسے کرے، تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا تجزیہ کرے تو کس طرح کریں۔
آئیے کچھ دیر کے لیے سیاست کو ایک طرف رکھتے ہیں، اپوزیشن اور حکومت کی محاذ آرائی سے دور چلتے ہیں، گالم گلوچ کی مکروہ آوازوں سے اپنی سماعت کو بچاتے ہوئے کسی ایسی بات کا ذکر کرتے ہیں کہ جہاں ان صداؤں کا گزر نہ ہو۔ ، معززین کی لگتی منڈیوں اور ان کے بھاؤ تاؤ کی متعفن باتیں چھوڑ کر کچھ وقت ان کی باتیں کرتے ہیں، جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کرنے کا عزم کیا ہو، جو وطن عزیز کی مانگ میں اپنے لہو کا سندور بھرنے کو تیار رہتے ہیں۔
جن دنوں سیاسی گہما گہمی عروج پر تھی، جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری تھا، تمام سیاسی زعماء اپنی اپنی قابلیت اور ہنر آزما رہے تھے، تب وفاقی دارالحکومت سے چند سو کلومیٹر دور کامرہ میں ایک ایسی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس نے مجھ جیسے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں توانائی کی ایک لہر دوڑا دی، مایوسی کے شکار محب وطن پاکستانیوں کو امید کی ایک نئی کرن دکھا دی، یوں تو پاکستانی مسلح افواج کی دفاعی قربانیوں اور کامرانیوں کی داستان طویل ہے۔
پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کے لئے ہماری مسلح افواج کی قربانیوں کی ایک طویل تاریخ ہے جس کو اس مختصر کالم میں بیان نہیں کیا جاسکتا، تاہم ان سطورمیں پاک فضائیہ کی پیشہ ورانہ کامیابیوں کا تذکرہ ضرور کرنا چاہوں گا، پاک فضائیہ نے ابھی نندن کے طیارے کو گرا کر بھارت کو ایسا سبق سکھایا تھا جسکی گونج صدیوں سنائی دیتی رہے گی، لیکن دشمن نے اپنی خفت مٹانے کے لیے اور فضا پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے فرانس سے رافیل طیارے خریدے تو یہ طیارے خریدنے کے بعد اس کا گمان یہ تھا علاقے کی فضائی حدود پر اس کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔
ان کے کچھ تجزیہ نگار یہ بھی دعویٰ کر رہے تھے کہ اب پاکستان کی فضا میں ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ لیکن پاکستانی مسلح افواج کے تھنک ٹینک جو کہ ہر وقت مصروف عمل رہتے ہیں انہوں نے ایک طویل منصوبہ بندی کے تحت نئے طیاروں کی خریداری اور ان کو پاکستانی فضائی بیڑے میں شامل کرنے کا کام جاری رکھا۔ پاکستان نے جدید ترین جے10 سی لڑاکا طیاروں کی خریداری کےلیے 2021 میں ہی چین سے معاہدہ کر لیا چند دن قبل مذکورہ معاہدے کے تحت 6 عددجے 10 سی لڑاکا طیاروں کو باقاعدہ پاک فضائیہ میں شامل کر لیا گیا۔
ان طیاروں کی گونج کا یہ عالم تھا کہ انڈین فوج اور ذرائع ابلاغ جو اس سے قبل رافیل طیاروں کی بھارتی فضائی بیڑے میں شمولیت کے بعد بغلیں بجا رہے تھے، ان کی خوشیاں یک دم مانند پڑ گئیں، جے 10 سی چین کا تیارکردہ طیارہ ہے۔ یہ ایک، تیز رفتار، پھرتیلا اور وزن کے اعتبار سے ایک کم وزن جدید لڑاکا طیارہ ہے جو موجودہ دور کے بہترین لڑاکا طیاروں کی فہرست میں نمایاں ہے۔
مسلح افواج کے زرائع کے مطابق چین کا تیار کردہ جے ٹین سی جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔ یہ ایویانیکس نظام، کے ساتھ 6 ہزار کلوگرام وزن تک جنگی ہتھیاروں سمیت پرواز کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ہی وقت میں کئی اہداف کو نشانہ بناسکتا ہے۔ جے ٹین سی، فائرکنٹرول ریڈار، لیزرگائیڈڈ بم اور میزائل سے لیس ہونے صلاحیت رکھتا ہے جو 250 کلومیٹر رینج میں کارروائی کرسکتا ہے۔ جے 10سی لڑاکا طیارے کی پاکستانی فضائی بیڑے میں شمولیت سے پاک بحریہ کو بھی مدد ملے گی اور سمندری یا آبی سرحدوں کے دفاع میں اس کا کلیدی کردار ہوگا۔ اس خبر نے پورے ہندوستان کو نہال کردیا۔
سیاسی گہما گہمی کی وجہ سے یہ خوش کن خبر میڈیا پر زیادہ جگہ تو نہ بنا سکی البتہ دشمن کے دل دہل گئے اور پاکستان کی فضا محفوظ ہوگئی۔ پاک فضائیہ کے ماہرین کے مطابق پاکستانی بحریہ نے اپنی جنگی حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دیا ہے، تاکہ وہ بحیرہ عرب کے پانیوں میں میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اس کردار کو بخوبی نبھانے میں جے-10 نہایت موثر اور کارگر کردار ادا کرے گا۔
پاکستان کو اپنی مخصوص سرحدی حالات کی وجہ سے ہر دم تیار اورچوکس تو رہنے کی ضرورت ہے۔ اور پاک فضائیہ بحریا اور زمینی افواج اپنے فرائض کو نبھانے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر رہی ہیں۔ مختلف ممالک کے ساتھ مل کر جنگی مشقیں کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مسلح افواج کے تینوں شعبوں کی استعداد کار میں بھی دن بدن اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بھارت اور افغانستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر پاکستان کے دفاعی ادارے اس طرح جدید ہتھیاروں سے لیس ہو رہے ہیں اس سے اطمینان کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔
اب تحریک عدم اعتماد کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے، وزیراعظم عمران خان اپنا دور اقتدار مکمل کر سکیں یا نہیں، پنجاب کی پگ چوہدری پرویز الہی پر سجے یا عثمان بزدار ہی براجمان رہیں، پوری قوم اطمینان کی نیند سو رہی ہے کہ اس کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع مضبوط اور پروفیشنل ہاتھوں میں ہے۔ دشمن کی کوئی منصوبہ بندی وطن عزیز کو گزند پہنچانے کی جرات نہیں کر سکتی۔ سانحہ ارتحال۔ گزشتہ دنوں سابق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔
میرے والد گرامی حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کے گہرے دوست تھے ان کے ساتھ کئی سال تک سپریم کورٹ میں مل کر کام کیا۔ مجھ پر بھی خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ میری شادی پر خصوصی طور پر بھیرہ تشریف لائے تھے انکی وفات سے ملک ایک وضع دار اور باوقار شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔