Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farooq Bahaul Haq
  4. Bill Gates Aur Pakistani Taleemi Idare

Bill Gates Aur Pakistani Taleemi Idare

بل گیٹس اور پاکستان کے تعلیمی ادارے

بل گیٹس کی پاکستان آمد کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، اُن کے پیشِ نظر اس سطح کی شخصیت کی پاکستان آمد یقیناً ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں پر بیرونی پروپیگنڈے کے زیر اثر غیرملکی کھلاڑی کرکٹ کھیلنے سے احتراز کریں، جہاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے پاکستان آکر مذاکرات کرنے کے بجائے دبئی میں بیٹھنا مناسب سمجھیں، جہاں سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنا تو کجا یہاں آنے سے بھی اجتناب کریں، عالمی ٹورزم نہ ہونے کے برابر ہو، پاکستان کی حکومت اور سیکورٹی ادارے چومکھی لڑائی لڑنے میں مصروف ہوں اور اس لڑائی کے باعث پاکستان کے اندرونی حالات عدم استحکام کا شکار ہوں، ان سارے اسباب کے باوجود بل گیٹس کی پاکستان آمد یقیناً پاکستانیوں کیلئے ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔

ہمارے کان سیاسی خبریں سننے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ یہاں پر اس نوعیت کی خوش کن خبر جگہ نہیں بنا پاتی، یا پھر اگر جگہ ملے تو اس کی عمر ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بل گیٹس کی پاکستان آمد نے ہمارے دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کر دیے۔ وہ یہاں پر اگرچہ صرف چند گھنٹے موجود رہے لیکن ان کے چند گھنٹے ہمارے خارجہ پالیسی کے بزرجمہروں کی کئی سالہ محنت پر بھاری ہیں۔ اگرچہ بظاہر انہوں نے یہاں پر کسی بڑے منصوبے کا اعلان نہیں کیا لیکن اس کے باوجود ان کی آمد سے غیرملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ اور تقویت کا احساس ضرور ملا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اپنی دولت کے اعتبار سے بل گیٹس اس وقت دنیا میں ایلن مسک، جیف بیزوس اور مارک زکربرگ کے بعد چوتھے نمبر پر ہیں مگر پھر بھی آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ ان کی دولت دنیا کے 130ممالک کے بجٹ سے زیادہ ہے اور ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس وقت بل گیٹس کی دولت کا تخمینہ 131ارب 40کروڑ ڈالر لگایا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا سال 2021-22ءکا بجٹ محض 48ارب ڈالر ہے۔

بل گیٹس کو پاکستان آمد پر سربراہ مملکت کا پروٹوکول دیا گیا جسکے وہ حقدار تھے انہیں ہلالِ پاکستان کا اعزاز بھی دیا گیا جو کہ قابلِ تحسین ہے لیکن اُنکی آمد سے مزید فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ نمایاں ترین افراد کی بل گیٹس سے ملاقات کا اہتمام کروانا چاہیے تھا۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی کے طلبا سے آن لائن مکالمہ بھی ممکن بنایا جا سکتا تھا اور اگر اس طرح کے نمایاں ترین افراد بل گیٹس سے مطالبہ کرتے کہ وہ پاکستان میں بھی مائیکرو سافٹ کے حوالے سے سرمایہ کاری کریں تو ان کی بات کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔

ہم اپنی معیشت کی بحالی کیلئے ملکوں ملکوں بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، دوست ممالک کے دروازے کھٹکھٹا چکے ہیں تو اگر پاکستان کی نمایاں ترین اور موثر شخصیات بل گیٹس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا مطالبہ کرتیں تو یقیناً وہ اس پر عمل درآمد کا وعدہ کرتا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ طلبہ و طالبات کو اگر بل گیٹس سے ملاقات کا موقع فراہم کیا جاتا تو نہ صرف ان طلبا کی حوصلہ افزائی ہوتی بلکہ پاکستان کے طلبا کے ساتھ اس کا براہِ راست رابطہ بھی ممکن ہو جاتا جو آگے چل کر پاکستان کے لیے انتہائی خوشی کا باعث بنتا لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ان کا آنا ہی پاکستان کے لیے کافی ہے۔ جس طرح وزیراعظم نے اپنا ذاتی اثر و رسوخ اور شخصیت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں پاکستان آنے پر آمادہ کیا، مستقبل میں ایلن مسک اور مارک زکر برگ کو بھی پاکستان آنے پر آمادہ کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مؤثر سمجھا جانے والا مضمون ہے، اس رجحان کو دیکھتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ماہرینِ تعلیم کو اپنے نصاب اور اندازِ تدریس پر ایک مرتبہ پھر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان کی یونیورسٹیاں کوئی ایسا سائنس دان پیدا کیوں نہ کر سکی جس کی عالمی سطح پر پذیرائی کی جا سکے۔ اگر پی ایچ ڈی افراد کی تعداد گننے پر آئیں تو شاید ان کی تعداد لاکھوں میں نکلے لیکن ایسی تحقیقی کتب کا وجود عنقا ہو چکا ہے کہ جن کو صحیح معنوں تحقیقی کتاب کہا جا سکے۔

11سو میں سے 11سو نمبر لینے کا مخیر العقول کارنامہ سرانجام دینے والے طلبہ و طالبات عملی زندگی میں جاتے ہیں تو وہاں کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیوں نہیں ہو سکتے؟ بیوروکریسی سمیت ہر شعبۂ زندگی میں داخل ہونیوالے ہمارے طلبہ و طالبات اہلیت سے کیوں محروم ہیں؟ یہاں کی یونیورسٹیوں میں نمایاں پوزیشن یہاں تک کہ گولڈ میڈل حاصل کرنیوالے طلبہ و طالبات بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں جگہ نہیں بنا پاتے؟ اب وقت آگیا ہے کہ نظامِ تدریس کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ جو یونیورسٹی عالمی معیار کے سائنس دان اور موجد تیار نہ کرے ان کیلئے سزا اور جزا کا نظام وضع کیا جائے۔ اس حکمت عملی کے ساتھ تحقیق کیلئے فنڈز کا اجراممکن بنایا جائے اور پھر ان سے نتائج اخذ کیے جائیں۔

ہمارا ہمسایہ ملک خلا میں راکٹ بھیجنے کی کوشش کر چکا ہے لیکن ہمارے خلائی تحقیق کے ادارے کیا کر رہے ہیں؟ کسی کو کچھ پتا نہیں۔ کیا بل گیٹس جیسے لوگ صرف یورپ میں پیدا ہو سکتے ہیں؟ ہماری دھرتی اتنی بانجھ تو نہیں، ہمارے ماہرینِ تعلیم اور لیڈران کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari