Main Bhanna Kingre Dilli De
میں بھنا کنگرے دلی دے
انسانی زندگی اور اس سے وابسطہ جذبات، کائنات کا وسیع ترین موضوع ہیں۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے مطالعے کے حوالے سے میرا پسندیدہ ترین موضوع کون سا ہے تو میں برملا کہہ دوں گا کہ انسانی جذبہ حریت اور ظلم کے خلاف بغاوت کی لازوال داستانیں میرے پسندیدہ ترین موضوعات ہیں۔ خدا کی جملہ مخلوقات میں یہ طاقت صرف انسان کے پاس ہے کہ وہ اپنے ماحول کے رحم و کرم پر نہیں رہتا۔ حالات اگر اس کے مزاج کو موافق نہ آئیں تو وہ ان کے خلاف صف آراء ہو جاتا ہے، دریاؤں کے رخ موڑ دیتا ہے، پہاڑوں سے نہریں نکال لیتا ہے اور کائنات کا سینہ چیر کے وہ گوہر برآمد کر لیتا ہے جس کی طلب اسے تڑپا رہی ہوتی ہے۔
پاکستان لٹریچر فیسٹول، دن 4 بجے، لاہور کا الحمرا ہال نمر 1، ایک ایسے ہی کردار کی کہانی سے گونج رہا تھا جو ملک و ملت کے عشق میں عین وقت شباب تختہ دار پہ جھول گیا مگر اصولوں پہ مفاہمت گوارا نہ کی۔ کہانی سنانے والا پیرانہ سال تھا مگر اس کی آواز کی گھن گرج میں کسی دیوتا کا سا جاہ و جلال تھا۔ لوگوں سے اٹا اٹ بھرے ہال پر کہانی کار کی آواز کا فسوں طاری تھا۔ چرخے کی کوک، ادھ رڑھکے کا ذکر، پنجاب کی رہتل، اور جواں مرگ کے ماتم کا بیان دل کی دنیا میں ایک عجیب ہیجان پیدا کر رہا تھا۔
میں چپکے سے داستان گو کا ہاتھ تھام کے چلنے لگا اور ایک صدی پیچھے جا رکا۔ یہ پنجاب کی دھرتی یہ لائلپور کا ایک چھوٹا سا لوکڑا ہے جسے 105 گ۔ ب بانگا کہا جاتا ہے۔ بغاوت کی خو اور آزادی کی تڑپ اس گاؤں کے بچے بچے کی گھٹی میں شامل تھی۔ حاکموں کی ایک عورت مارسیلیا شیروڈ کو دیکھ کے غلاموں کے چند نوجوانوں نے اس پہ آوازیں کسیں۔ جنرل ڈائر کا زمانہ ہے۔ وہ اس بات کا تہیا کر لیتا ہے کہ میں اس غلام قوم کو یہ باور کروا کے رہوں گا کہ ایک فرنگی عورت کی عزت تمہارے خداؤں سے بھی بڑھ کر ہے۔
جس گلی میں مارسیلیا شیروڈ کے خلاف نازیبا الفاظ استمعال کیے گئے، اس گلی میں کسی انڈین کو انسانوں کی طرح سیدھا چلنے کی اجازت نہ تھی، بلکہ کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگنے کا حکم تھا۔ پورے ہندوستان کو سرکاری فرمان جاری ہو چکا تھا کہ کوئی بھی ہندوستانی کسی گورے کے سامنے اس کے ہاتھ اور چھڑی سے کم فاصلے پہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ بانگا گاؤں سے ایک 12 سالہ بچہ اپنے والد اور چچا کے ہمراہ، ظلم کے ان ظابطوں کے خلاف احتجاج کرنے امرتسر گیا۔
13 اپریل 1919، بیساکھی کے میلے میں جنرل ڈائر نے نہتے کسانوں، عورتوں اور شیرخوار بچوں پر اس وقت تک فائرنگ کروائی جب تک گرُکھا رائفلز، کے فوجیوں کی بندوقیں گولیوں سے خالی نہ ہوگئیں۔ جلیانوالہ باغ کی مٹی شہیدوں کے خون سے رنگین ہوگئی۔ زمیں پہ خون پانی کی طرح رواں دیکھ کے جنرل ڈائر نے یہ کہہ کر غلام ہندوستانیوں سے اپنی نفرت کا اظہار کیا کہ، آج تو ہمارا ایک راؤند بھی ضائع نہ گیا۔
جبر کی یہ داستان اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر اس 12 سالہ بچے نے اپنے بچپنے کا پر تو وہیں اتار پھینکا۔ خون میں گندھی جلیانوالہ باغ کی مٹی مانگ میں بھری اور روب سپئر، چی گویرا، فیدل کاسترو، ولادیمیرلینن، جوزف اسٹالن، تھامس سینکارا، فلپ مورس، ماؤزے تنگ، مارٹن لوتھرکنگ، چارلس ڈیگال، ولیم ویلس، نیلسن منڈیلا، فریڈرک ڈگلس، مارٹن لوتھرکنگ، صلاح الدین ایوبی، ٹیپو سلطان، سید احمد بریلوی، شاہ ولی اللہ، سبھاش چندر بوس، لالہ لجپت رائے، اودھم سنگھ محمد علی جناح، فیض احمد اور حبیب جالب جیسے درویش صفت انقالابیوں کی صف میں آن کھڑا ہوتا ہے۔
اس دور میں جتنی سرخ کتابیں دستیاب تھیں یہ نوجوان گھول کے پی گیا۔ بالکہ جس عمر میں کچے عشق کی پینگیں بڑھاتے ہیں یہ شہیدوں کے لہو کا قرض چکانے کی فکر میں مبتلا ہوگیا۔ نوجوان جب انقلاب کے رومان پرور خواب دیکھنے لگ جائیں تو پھر دشت امکاں ان کے ایک قدم پہ ہوتا ہے۔ ان کی کمندیں ستاروں کو جنجھوڑ ڈالتی ہیں اور پہاڑ ان کی ہیبت سے سمٹ کر رائی ہو جاتے ہیں۔ لالہ لجپت رائے کی موت پر، اس انقلابی نے بم دھماکے سے سامراجی طاقتوں کے پایہ تخت، دہلی اسمبلی ہال کے کنگرے ہلا دے۔
بم دھماکے سے کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا تاہم اس انقلابی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے کٹہرے میں کھڑے ہو کے جج کو بتایا "بہروں کو سنانے کے لئے چیخنا ضروری ہوتا ہے"۔ مقدمے کی ہر پیشی پہ اس کی تقریر کی گونج سے سارا ہندوستان دہلتا تھا۔ مقبولیت میں وہ گاندھی کو اس زمانے میں مات کر رہا تھا۔ چہار سو اس کی تصویریں خریدنے والوں کا رش تھا۔ غالب نے کسی چاہنے والے کو ایک خط میں لکھا تھا، "یہ اٹل حقیقت ہے میرا اور آپکا لہو ملتا ہے۔ جب وہاں احراق کی شدتیں ہیں تو اس کا ظہور یہاں کیونکر ممکن نہ ہو"۔
یہ کیسے ہو سکتا تھا ایک انقلابی جبرو استبداد کے خلاف، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے گرج رہا ہو اور زمانہ حال کا درویش چپ بیٹھے۔ قائداعظم کی چھ صفحات پر مبنی، اس انقلابی کے حق میں، تقریر کی گونج نے ایک بار پھر "دلی" کے کنگرے ہلا کر رکھ دیے۔ وہ آشفتہ سر آخر دم تک حریت پسندوں کی طرح خود کو اپنے نظریہ پر قائم رکھتا ہے اور موت کو غلامی کی زندگی پر ترجیح دیتے ہوئے 23 مارچ 1931 کو محض 21 سال کی عمر میں سنٹرل جیل لاہور میں یہ کہتے ہوئے تختہ دار پر جھول جاتا ہے۔
کرہ خاک ہے گردش میں، تپش سے میری
میں وہ مجنوں ہوں جو زنداں میں بھی آزاد رہا
یہ داستان، آزادی ہند کے پروانے بھگت سنگھ کی داستان دل پذیر ہے، سنانے والا اس عہد کا مجتہد، نابغہ روزگار داستان گو مستنصر حسین تارڑ ہے جو دھرتی کے اس فراموش بیٹے کا قرض چکانے کی اپنی سی سعی کر رہا ہے اور کچھ سامعین اس کم سن انقلابی کا لہو اپنے لہو میں گرتا محسوس کر رہے ہیں۔ یہ الحمرا کا ہال نمبر 1 ہے۔