Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhir Manzoor
  4. Beggars Bhi Choosers Ho Sakte Hain, Agar

Beggars Bhi Choosers Ho Sakte Hain, Agar

بیگرز بھی چوزرز ہو سکتے ہیں ،اگر

شہباز شریف کے حالیہ بیان "Beggars cant be chooser" کوسنا تو یادوں کے دفتر سے چند قصے ذہن کے پردے پہ امڈ آۓ جنہوں نے اپنے تیٔں شہباز شریف کے اس بیانیے کو نیست ونابود کر ڈالا۔ آپ اسے چار فقیروں کی داستان بھی کہہ سکتے جو سارے ہی اتفاق سے ملک خداد سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتھا میں شامل تمام کردار ماسواۓ ملاں صاحب کے، اصلی اور واقعات بر مبنی حقیقت ہیں۔

موجودہ صدی کے پہلے عشرے کے آخری سالوں کی بات ہے ساری دنیا بشمول انگلستان عالمی کساد بازاری کی ذد میں تھی۔ دنیا کے سے بڑےمالی مرکزلندن میں بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہو کے بند ہوچکی تھیں۔ نوکریوں کا شدیدبحران تھا۔ تارکین وطن بالخصوص غیرملکی طلباء بےروزگاری کی فہرست میں سب سے اوپر تھے۔ ان حالات میں فاقوں سے تنگ آکر دو دوستوں نے(ذولکفل جس کا نک نیم کفلی تھا اور زین) نے سر جوڑے اور طے پایا کہ اس مشکل ترین دور میں بھی یہاں اگر کوئی دھندا گزارے مافق چل رہا ہے تو وہ صرف گدا گری ہے۔

لہذا جلد از جلدیہ کام شروع کیا جائے اور اس وقت تک جاری رکھا جاۓجب تک حالات معمول پرنہ آجائیں۔۔ طے پایا کہ زین لندن میں ہی گداگری کرے گاجبکہ کفلی اس کام کے لیے مانچسٹر کی طرف رخت سفر باندھے گا۔ کام شروع ہو گیا، دن گزرتے گۓ۔ ایک ماہ بعد کفلی، زین سے ملنے واپس لندن آیا۔ زین کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے کفلی کو برانڈ نیو مرسڈیز، اجلے کپڑوں میں ملبوس، نوٹوں سے بھرے بیگ کے ساتھ دیکھا۔ جبکہ زین نحیف و نذار، اسی خستہ حالت میں، جیسے پہلے تھا۔

زین حیرت انگیز لہجے میں کفلی سے مخاطب ہوااورپوچھاکہ تمہارے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا، کیاتم نے کوئی نیا کام شروع کیا ہے؟ کفلی بولا میں توگداگری ہی کر رہا ہوں۔ شام تک میرا بیگ 10 پاونڈز کے نوٹوں سے بھر جاتا ہے۔ اور تم سناؤ کیسا چل رہا ہے۔ زین مرجھائے ہوئے لہجے میں بولا دن بھر محنت کے بعدمیرے پاس تو بمشکل 5، 6 پاونڈز ہی اکٹھے ہوتے ہیں۔

کفلی بولا!بھلا یہ کیونکرممکن ہے۔ ذرا اپنا گداگری والا سائن پوسٹ تو دکھاؤ۔ انگلستان میں بھیک مانگنے کا رواج ذرا ادبی طرز کا ہے۔ گداگر کو اپنا ٹھیہ لگانے سے پہلے ایک جاندار تحریر کاحوالہ مطلوب ہوتا ہے جسے اپنے سامنے آویزاں کرکے وہ اپنے استحقاق کا دعویدار بنتا ہے۔ زین نے کفلی کو اپنا سائن پوسٹ دکھایا؛ اس پہ درج تھا۔

"have no work, a wife and 3 kids to support. Plz help"

کفلی سائن پوسٹ پڑھنے کے بعد مایوس کن لہجے میں بولا۔ یار زین!تمہارے بمشکل اتنے ہی بنتے تھے جو تمہیں مل گئے۔۔

زین نے حیرت بھری نظروں سے کفلی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تمہارے سائن پوسٹ پہ کیا لکھا ہے۔ کفلی نے اپنا سائن پوسٹ زین کی جانب بڑھا دیا جس پر درج تھا؛

"I only need another 10£, to move back to Pakistan permanently."

کفلی کی چمکتی کار، اجلے کپڑےاور نوٹوں سے بھرا بیگ یہ ثابت کر رہا تھا کہ Baggers do have their own choice if,they have any brain.

**

مالی بحران کے انہی دنوں جب چھوٹی موٹی نوکری بھی کسی نعمت عظمی سے کم نہ تھی، میں سینٹرل لندن کی ایک فلک بوس عمارت کے چھٹے فلور پہ پیدل سیڑیاں چڑھتا، ٹھٹھرتی سردی میں، ایک کسٹمر کو Pizza ڈیلور کرنے گیا۔ فلیٹ سے ایک پولش (Polish (گوری نمودار ہوئی۔16 پاونڈ مجموعی بل کے عوض اس نے مجھے20 پونڈ کا نوٹ تھماتے ہوئے موقع پر ہی بقایا ریزگاری کا مطالبہ کردیا۔700 سیڑیاں چڑھنے کے بعد ابھی سانس بھی سنبھلنے نہ پائی تھی کہ Pizza Industry کی ریتی رواج سے متصادم، بقایا مانگنے کے اس مطالبے نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی۔

میری جیب میں4 پاونڈ کا کھلا چینج موجود تھا جس کی کھنک گوری کے کانوں تک پہنچ چکی تھی۔ اگر میں چاہتا تو آرام سے مطلوبہ رقم شکریہ کے ساتھ ادا کرتا اور واپسی کی راہ لیتا مگر میرے اندر کا دہقانی شخص اچانک بیدار ہوگیا اور اس نے بدلا لینے کا فیصلہ کیا۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دانستہ طور پہ، بجائے4 پاونڈ کاچٹھا نکالنے کے10 پاونڈ کا نوٹ ٹٹول ٹٹال کےنکالا اور اسے تھماتے ہوئے کہا "معذرت میرے پاس کھلےپیسےنہیں ـ"You, Keep the change"۔ ایسے دیس میں جہاں "Customer is the King" اور "Customer is always right" جیسی اصطلاحات اپنے خالص معنوں میں نافذالعمل تھیں، یہ کارہاۓ نمایاں انجام دینا آسان نہ تھا۔

ان دگرگوں حالات میں، محض30 پاؤنڈز کے عوض ساری رات کام کرنے والے ڈلیوری بواۓ کے لیۓ، اپنے پلے سے10 پاونڈ کی ٹپ دے دینا کسی بھی دوسرے شخص کے لیۓ نا قابل فہم عمل تھا مگر فتح و سرشاری کاجو احساس اس وقت اس ڈلیوری بواۓ کے اندرٹھاٹھیں مار رہا تھااسے صرف وہی سمجھ سکتا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے لندن کے سارے گوروں کو ان کی اوقات یاد دلا دی ہو۔ جیسے سارے مشرق کی نمایندگی کرتے ہوۓ مغرب کے خلاف غیرت کا مقدمہ جیت لیا ہو۔۔ واپس ریسٹورنٹ پہنچنے سے پہلے کسٹمر کافون آ چکا تھا۔ منیجر نے نوکری سے برخاست کر تے ہوۓ آیٔندہ کبھی اس طرف نہ آنے کی نصیحت کی۔

قیام انگلستان کے دوران یہ پہلا موقع نہ تھا جب نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے مگراتہاس گواہ ہے، جب کبھی وہاں کے باسیوں نے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ گوری چمڑی والےکو کالی چمڑی والے پہ فضیلت حاصل ہے تو موقع پہ اسکی تصیح کی گٔی اور اپنا فیصلہ لیا گیا چاہے اس فیصلے نے زندگی کی گاڑی کو سالوں پیچھے ہی کیوں نہ دکھیل دیاہو۔

**

مال روڈ، ریگل چوک پہ اک چمکتی دمکتی گاڑی اشاے پہ رکی۔ گداگر کے دستک دینے پہ گاڑی کے کالے شیشے اترے اور اندر سے سیٹھ صاحب نے شان بے نیازی سے10 کا نوٹ گداگر کی جھولی میں ڈالتے ہوئے، فقیر پر نصیحتوں کی بوچھاڑ کر دی۔ سیٹھ صاحب نے گداگر سے کہا سگریٹ نوشی مکمل ترک دو، نشے کے تو قریب بھی مت جاؤ۔ جھوٹ سے مکمل اجتناب برتو۔ سستی اور کاہلی سے جلد از جلد چھٹکارحاصل کرلو اور محنت کو اپنا شعار بناؤ، کامیاب ہو جائو گے۔ گدا گرکی آنکھوں میں نمی اترآئی اور وہ گلو گیر لہجے میں بولا، سیٹھ صاحب10 روپے تو آ پ نے دے دیےہیں۔ ان پیسوں سے میں پہلے حج نہ کر آؤں باقی کی نیکیاں میں واپس آ کر، لوں گا۔

اگر گداگر بھی اپنی بات کہنا جانتا ہو تو سیٹھ کو اس سے بات کرنے سے پہلے سو بار سوچناہو گا۔

**

ملاں نصیرالدین نماز جمعہ سے فارغ ہو کر بادشاہی مسجدسے باہر نکلے تو گدا گروں کی فوج نے انہیں گھیر لیا۔ ملاں نے دل میں ٹھان لی کی آج خیرات کسی مستحق کو ہی دوں گا۔ اسی کشمکش کے عالم میں ان کی نظر پرے بیٹھے ایک ایسے گداگر پر پڑی جس کے سامنے کشکول تو موجود تھا مگر وہ بظاہر چھینا جھپٹی کی اس مشقت سے بے نیاز تھا۔ ملاں اس کے قریب گئے تو انہیں چہرہ کچھ شناسا، سا لگا۔ ذہن پہ تھوڑا زور ڈالنے کے بعد گویا ہوئے۔ کیا تم وہی شخص نہیں ہو جو شہر کے سب سے مہنگے قحبہ خانے پہ ساری رات مشروب مغرب نوش فرماتا ہے؟

وہ بولا، جی ساری رات تو نہیں بس یہی کوئی ایک دو بج جاتے ہوں گے۔ ملاں بولے اور واپسی پہ گھر تک سالم تانگہ بھی تم ہی کرا کے جاتے ہونا؟ اس نے جواب دیا، جی زرا سہولت رہتی ہے اب آدھی رات کے وقت کہاں آدمی مارا مارا پھرے۔ ملاں نے تھوڑا اور ذہن پہ زور دیا تو ان پہ کھلا کہ یہ شخص تو اکثر و بیشتر شاہی حماموں میں کھوپرے کے روغن سے بدن کی مالش کرواتے بھی پایا جاتا ہے۔ ملاں کے استسفار پر وہ کہنے لگا!جی کہاں روز روز، مہینے بھر میں کبھی ایک آدھ بار وہاں جانا بھی نصیب ہو جاتا ہے۔

ملاں نے دریافت کیا ہر بدھ وار بہزاد قصاب کی دکان سے بکرے کی چانپوں کا گوشت بنوانے کے لیے لایٔن میں سب سے آگے تم ہی کھڑے ہوۓ ہوتے ہو نا؟ بولا! اجی اب کیا کریں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے پیٹ کا دوزخ بھی تو بھرنا پڑتا ہے نا۔ ملاں اس کے اسقدر سفاکانہ اقرار جرم سے بہت متاثر ہوئے اور اسے پچاس سونے کی اشرفیوں سے نوازا دیا۔ یہ دیکھ کے تھوڑی دور بیٹھا گداگر ملاں صاحب کی طرف لپکا اور فریاد کی۔

ملاں نے اس سےپوچھا، بتا کیا مانگتا ہے۔ بولا، جی مجھے تو ایک وقت پیٹ بھر کھانا مل جائے تو وہی غنیمت جانوں۔ ملاں نے ایک کوڑی جیب سے نکال کے اس کے حوالے کر دی۔ وہ سیخ پا ہو کر بولا! اسے تو سونے کی پچاس اشرفیاں اور مجھے یہ پھوٹی کوڑی۔ ملاں بولے اس کی ضروریات تم سے کہیں گنا زیادہ ہیں۔ اسےجو دیا، وہ بھی اس کے لئے کم ہے۔ اور تمہیں جو دیا، وہ بھی تمہارے لیے زیادہ ہے۔ بیگرز کی بھیاگر کوئی اپنی کلاس ہو تو وہ چوزرز ہی ہوا کرتے ہیں۔

آخر میں شہباز شریف کی خدمت میں یہی عرض کرناچاہوں گا کہ کسی بھی شخص یا قوم کی مالی حیثیت اسکی غیرت کا شاخسانہ نہیں ہوتی۔ رزق صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بحثیت مسلمان ہمارا اس بات پہ پختہ ایمان ہے کہ جسے اللہ دینا چاہے اس سے چھین کوئی نہیں سکتا اور جسے اللہ محروم رکھنا چاہے اسے دے کوئی نہیں سکتا۔

سرمایہ دارانہ نظام میں ملکوں کے مابین قرضوں کا باہمی لین دین معمول کا عمل ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکہ کے اپنےقرضوں کی فہرست انتہائی طویل ہے۔ پاکستان چیر یٔٹی(خیرات) کرنے کے حوالے سے دنیا کا سب سے مخیر ملک ہے اور اس میں بسنے والے، خوددار اورقومی غیرت کا ہمالیہ ہیں، بھکاری نہیں۔

Check Also

Tehreek e Azadi e Kashmir Par Likhi Gayi Mustanad Tareekhi Kitaben

By Professor Inam Ul Haq